طلاق در اسلام



۶۔ اگر شوھر مفقود الخبر ھو جائے اور عورت نفقہ یا دوسری باتوں کی وجہ سے سختی و پریشانی میں مبتلا ھو تو وہ حاکم شرع کی طرف رجوع کر کے طلاق حاصل کرسکتی ھے ۔

 Ø§Ø³Ù„ام Ù†Û’ جس طرح مرد Ú©Û’ تنفر Ú©ÛŒ طرف تو جہ دی Ú¾Û’ عورت Ú©Û’ تنفر Ú©Ùˆ بھی پیش نظر رکھا Ú¾Û’ اسی لئے اگر عورت شوھر سے نفرت کرتی Ú¾Û’ اور اپنے Ú©Ùˆ کسی بھی طرح مشترک زندگی بسر کرنے پر آمادہ نھیں کر سکتی تو شوھر Ú©Ùˆ مھر بخش کر یا کچہ دے کر طلاق پر آمادہ کر سکتی Ú¾Û’ Û” قرآن میں Ú¾Û’ ” جو مال تم Ù†Û’ اپنی بیویوں Ú©Ùˆ دیا Ú¾Û’ اس Ú©Ùˆ واپس لینا تمھارے لئے جائز نھیں Ú¾Û’ مگر یہ کہ حدود الٰھی Ú©ÛŒ برقرا ری سے خوف زدہ Ú¾Ùˆ ( اور نکاح Ú©Ùˆ باقی نہ رکہ سکتے Ú¾Ùˆ ) ایسی صورت میں اس مال سے کچہ Ù„Û’ سکتے Ú¾Ùˆ اور طلاق دے سکتے Ú¾Ùˆ Û” (Û±Û°)

اس سے پتہ چلا کہ اسلام Ù†Û’ عورتوں Ú©Û’ احساسات کا بھی خاص خیال رکھا Ú¾Û’ اور اس Ú©Û’ لئے بھی تکلیف دہ زندگی سے چھٹکارا پانے کا راستہ کھول رکھا Ú¾Û’ جیسا کہ رسول خدا  Ú©Û’ زمانے میں ایک واقعہ ایسا پیش آیا تھا Û” ابن عباس کھتے ھیں کہ ایک دن ” ثابت بن قیس “ Ú©ÛŒ بیوی ” جمیلہ “ پریشاں حال پیغمبر (ص) Ú©ÛŒ خدمت میں آئی اور عرض کرنے Ù„Ú¯ÛŒ خدا Ú©Û’ رسول  اب میں ایک منٹ بھی ” ثابت “ Ú©Û’ ساتہ زندگی نھیں بسر کر سکتی اور کسی قیمت پر Ú¾Ù… دونوں کا سر ایک تکئیے پر اکٹھا نھیں Ú¾Ùˆ سکتا اور اس میں اضافہ کرتے ھوئے Ú©Ú¾Ù†Û’ Ù„Ú¯ÛŒ کہ میری جدائی Ùˆ طلاق Ú©ÛŒ خواھش ” ثابت بن قیس “ Ú©Û’ ایمان یا اخلاق یا کیفیت معاشرت Ú©ÛŒ Ú©Ù…ÛŒ Ú©ÛŒ بناء پر نھیں Ú¾Û’ لیکن مجھے ڈر Ú¾Û’ کہ اگر میں طلاق نہ لوں تو کھیں کفر Ùˆ بے دینی Ú©ÛŒ طرف مائل نہ Ú¾ÙˆÚº Û” میری نفرت Ú©ÛŒ وجہ یہ Ú¾Û’ کہ میں Ù†Û’ اتفاقاً خیمے کا پردہ اٹھایا تو کیا دیکھتی Ú¾ÙˆÚº کہ ثابت چند لوگوں Ú©Û’ ساتہ آرھے ھیں اور وہ سب میں سب سے زیادہ کالے ØŒ بد صورت ØŒ پستہ قد ھیں Û” یہ دیکہ کر مجھے کر اھت محسوس ھونے Ù„Ú¯ÛŒ اورمیرے دل میں نفرت پیدا Ú¾Ùˆ گئی اب میںکسی قیمت پر ان Ú©Û’ ساتہ زندگی نھیں بسر کر سکتی ØŒ پیغمبر (ص)  Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ بھت پند Ùˆ نصیحت فرمائی مگر اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا Û” اس وقت آپ Ù†Û’ ثابت Ú©Ùˆ بلا کر پورا قصہ سنایا Û” ثابت جمیلہ Ú©Ùˆ ضرورت سے زیادہ چاھنے Ú©Û’ باوجود اس تکلیف دہ بات پر تیار Ú¾Ùˆ گئے اور مھر میں جو باغ جمیلہ Ú©Ùˆ دیا Ú¾Û’ اس Ú©Ùˆ واپس Ù„Û’ کر طلاق دے دی Û” مختصر یہ کہ اس طرح جمیلہ Ù†Û’ اپنے شوھر ثابت بن قیس سے طلاق خلعی حاصل کر Ù„ÛŒ Û” (Û±Û±)

 Ø§Ø³Ù„ام میں بعض ایسے موارد بھی ھیں کہ جھاں پر مرد Ú©Ùˆ طلاق دینے Ú©ÛŒ ضرورت نھیں ھوتی Ú¾Û’ بلکہ خود عورت Ú©Ùˆ یہ حق ھوتا Ú¾Û’ کہ وہ عقد نکاح باطل قرار دیدے کچہ مقامات پر عدالت اسلامی Ú©ÛŒ طرف رجوع کرنے Ú©Û’ بعد عقد نکاح باطل کرنے کا حق حاصل ھوتا Ú¾Û’ اور ایسے بھی مقامات ھیں جھاں عدالت شرعیہ Ú©ÛŒ طرف مراجعہ کئے بغیر بھی طلاق Ú¾Ùˆ سکتی Ú¾Û’ مثلا اگر عورت یا مرد دیوانہ Ú¾Ùˆ جائیں تو دوسرے کونکاح فسخ کر دینے کا حق Ú¾Û’ Û” ( جرمنی Ùˆ سوئز ر لینڈ جیسے مغربی ممالک میں بھی دیوانہ ھونا عقد نکاح Ú©Û’ ختم کرنے کا سبب Ú¾Û’ لیکن بعض دوسرے یوروپی ممالک میں جیسے فرانس Ú©Û’ اندر شوھر یا بیوی کا پاگل ھوجانا سبب طلاق نھیں Ú¾Û’ بلکہ اس پر لازم Ú¾Û’ کہ اپنے پاگل جیون ساتھی Ú©Ùˆ قبول کرے اور اسکے ساتہ زندگی بسر کرے Û” ظاھر Ú¾Û’ کہ یہ ایک جبری قسم کا Ø­Ú©Ù… Ú¾Û’ لیکن اسلام Ù†Û’ ایسی صورت میں یہ حق دیا Ú¾Û’ کہ اگر جی چاھے تو پاگل Ú©Û’ ساتہ زندگی بسر کرے اور نھیں جی چاھتا تو عقد Ú©Ùˆ فسخ کر Ú©Û’ اپنے Ú©Ùˆ آزاد کر Ù„Û’ )

اسی طرح مرد کا خصی ھونا یا عنین ھونا بھی عورت کے لئے حق فسخ کو ثابت کرتا ھے ۔ اسی طرح جبر و اکراہ بھی نکاح کے فسخ ھونے کا سبب ھے ۔ دوسرے اور بھی مواقع ھیں جھاں پر بعض فقھاء نے حق فسخ کو مانا ھے ۔

 Ù…غربی معاشرے کا سب سے بڑا درد سر ارکان خانوادہ کا متزلزل ھونا Ú¾Û’ مغربی دنیا Ú©ÛŒ موجودہ آزادی Ùˆ بے راہ روی کلیسا Ú©ÛŒ زبردستیوں کا رد عمل Ú¾Û’ کیونکہ عیسائی مذھب میں سرے سے طلاق کا وجود Ú¾ÛŒ نھیں Ú¾Û’ Û” کلیسا Ú©ÛŒ سختیوں سے مجبور Ú¾Ùˆ کر حکومتوں Ù†Û’ طلاق Ú©Ùˆ قانونی حیثیت دی Û” مثلا اکتوبر ۱۷۸۹ءء Ú©Û’ انقلاب سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ عیسائی مذھب Ú©ÛŒ بنا Ø¡ پر فرانس میں طلاق ممنوع چیز تھی لیکن جدید مدنی حقوق Ú©ÛŒ تنظیم Ú©Û’ وقت ۱۸۰۴ءء میںلوگوں Ú©Û’ دباؤ Ú©ÛŒ وجہ سے طلاق Ú©Ùˆ قانونی حیثیت دی گئی لیکن اس پندرہ سال Ú©Û’ اندرجس میں طلاق کوقانونی حیثیت حاصل تھی۔ بڑی سرعت Ú©Û’ ساتہ طلاق Ú©ÛŒ تعداد میں کافی اضافہ ھوگیااور پھرکلیساکے دباؤمیں آکر ۱۸۱۶ء میں قانون طلاق Ú©Ùˆ ختم کر Ú©Û’ ” تفریق جسمانی “ نام Ú©Û’ قانون Ú©Ùˆ نافذ کیا گیا لیکن پھر لوگوں کا شدید دباؤ Ù¾Ú‘Ù†Û’ پر حکومت Ù†Û’ مجبور Ú¾Ùˆ کر ۱۸۸۴ءء میں محدود طریقے پر عورت Ùˆ مرد Ú©Ùˆ قانوناً حق طلاق دیا مندرجہ ذیل مقامات پر قانوناً عورت Ùˆ مرد Ú©Ùˆ حق طلاق حاصل Ú¾Û’ Û”

 Û±Û” اگر مرد یا عورت کسی ایسے جرم Ú©Û’ مرتکب Ú¾Ùˆ جائیں جس Ú©ÛŒ بناء پر قانوناً مندرجہ ذیل کسی ایک سزا Ú©Û’ مستحق Ú¾Ùˆ جائیں Û” پھانسی ØŒ حبس دوام ØŒ ملک بدری اجتماعی حقوق سے محرومیت ØŒ محنت شاقہ Ú©Û’ ساتہ وقتی قید Û”

 Û²Û” دونوں میں سے کوئی زنا کا مرتکب Ú¾Ùˆ جائے لیکن عورت Ú©Ùˆ حق طلاق اس صورت میں Ú¾Ùˆ گا کہ جب مرد اس Ú©Û’ گھر میں زنا کا ارتکاب کرے Û” پولیس Ú©ÛŒ نظر میں مکمل طور سے یہ خیانت ثابت Ú¾Ùˆ Û” اس بنا پر جب میاں بیوی ایک دوسرے سے علاحدگی اختیار کرنا چاھیں تو تیسرے فریق Ú©ÛŒ بھی موافقت Ú©ÛŒ ضروری Ú¾Ùˆ Ú¯ÛŒ اس طرح کہ وقت معین پر سوتے وقت ،شوھر پولیس Ú©Ùˆ لاکر دکھائے کہ میری بیوی دوسرے مرد Ú©Û’ ساتہ سو رھی Ú¾Û’ ۔پھر جب پولیس شوھر Ú©Û’ ساتہ آکر کسی غیر مرد Ú©Ùˆ سوتا ھوا دیکھے Ú¯ÛŒ تب جا کر طلاق Ú¾Ùˆ Ú¯ÛŒ Û” (Û±Û²)

ذرا سوچئے کہ حق طلاق کتنی بے حیائی کے بعد حاصل ھوتا ھے ۔ آج کی متمدن دنیا ایک طرف تو عورت کو اجتماعی و سیاسی امور میں شریک ھونے کا حق دلاتی ھے اور دوسری طرف اس کی عزت و شرف کو باز یچھٴ اطفال بناتی ھے اور کس قدر بے حیائی کا مظاھرہ کراتی ھے ۔

 Û³Û” شوھر یا عورت ایک دوسرے Ú©Ùˆ آزار پھنچائیں یا اھانت کریں ØŒ یا فحش کلامی کریں Û” اسی طرح Ú©Û’ دوسرے مواقع  ھیں جھاں ایک دوسرے Ú©Ùˆ طلاق لینے کا حق حاصل Ú¾Û’ Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 next