خدا شناسی



 

زندگی اور حقیقت کے پیش نظر دنیا پر ایک نظر
خدا کی ضرورت

انسانی ادراک اور شعور جو انسان کی پیدائش کے ساتھ ھی پیدا ھوتا ھے، بالکل شروع سے ھی انسان پر دونوں جھانوں کے خدا کی ھستی کو واضح کردیتا ھے، کیونکہ یہ ان لوگوں کے عقائد کے بالکل خلاف ہے جو زندگی میں ھر چیز پر شک و تردید کا اظھار کرتے ھیں اور جھان ھستی کو صرف ایک وھم و گمان اور خیال کے سوا کچھ نھیں سمجھتے۔ ھم جانتے ھیں کہ ایک انسان اپنی پیدائش کے ساتھ ھی عقل و شعورلیکر آتا ھے اور وہ اپنی دنیا اور اپنے آپ کو بخوبی سمجھتا ھے، یعنی اسے اس بات میں کوئی شک و شبہ نھیں ھوتا کہ وہ موجود ھے اور اس کے علاوہ دوسری چیزیں بھی موجود ھیں نیز جب تک یہ انسان، انسان ھے اس میں عقل و شعور و علم موجود رھتا ھے لھذا اس کے لئے کسی قسم کے شک و تردید کی گنجائش نھیں ھوتی اور علم و شعور اور عقل میں بھی ھر گز تبدیلی پیدا نھیں ھوتی۔

یہ حقیقت اور ھستی (کائنات )جس کو انسان ایک سوفسطائی یا شک کرنے والے کے سامنے پیش کرنا چاھتا ھے، پھلے ھی سے ثابت شدہ ھے اور اس میں ھرگز بطلان پیدا نھیں ھوتا یعنی سوفسطائی اور شک کرنے والے شخص کے اقوال جو در اصل واقعیت اور حقیقت کی نفی کرتے ھیں، ھرگز درست نھیں ھیں۔ پس جھان ھستی (کائنات) میں ایک ثابت اور پائدار حقیقت موجود ھے لیکن یہ تمام حقیقی مظاھر جن کا ھم اس دنیا میں مشاھدہ کرتے ھیں کچھ عرصے کے بعد ان کی حقیقت ختم ھوجاتی ھے اور یہ سب نابود ھو جاتا ھے۔ اس طرح واضح ھو جاتا ھے کہ یہ دنیا اور اس کے تمام اجزاء خود بخود عین حقیقت نھیں ھیں (کہ جو نابود اور فنا نہ ھونے پائیں) بلکہ یہ سب ایک پائدار اور مستقل حقیقت سے وابستہ ھیں۔اسی پائدار حقیقت کے ذریعہ ھی یہ حقیقت دار ھوتے ھیں اور اسی کے ذریعہ ان کو زندگی ملتی ھے، لھذا جب تک اس حقیقت کے ساتھ رابطہ اور تعلق رکھتے ھیں اس حقیقت کی موجودگی کے ساتھ زندہ رھتے ھیں لیکن جوں ھی اس سے ان کا تعلق ختم ھو جاتا ھے، فوراً نابود ھو جاتے ھیں۔ ھم اس پائدار اور مستقل (لازوال) حقیقت کو ”واجب الوجود“ یعنی خدا کھتے ھیں۔

انسان اور جھان کے رابطے سے ایک اور نظر

وہ طریقہ جو گزشتہ باب میں خدا کی ھستی کو ثابت کرنے کے لئے بتایا گیا ھے، وہ طریقہ بھت ھی سادہ اور واضح ھے کہ انسان اپنی خدا داد قابلیت اور سرشت کے ساتھ اسے اپنا سکتا ھے اور اس طریقے میں کوئی پیچ و خم بھی نھیں ھے لیکن اکثرلوگ مادیات کی طرف متوجہ ھونے اور محسوس لذائذ میں محو و مستغرق ھونے کے سبب اپنی خدا داد سادہ اور پاک فطرت کی طرف توجہ دینے سے قاصرھوتے ھیں، کیونکہ ایسی حالت میں معنویات کی طرف توجہ دینا بھت ھی مشکل اور سخت کام ھو جاتاھے۔

بنابر ایں اسلام جو کہ اپنے آپ کو ایک عمومی اور آفاقی دین کھتا ھے اورتمام انسانوں کو اپنے دینی مقاصد کے سامنے مساوی جانتا ھے، ایسےافراد کے لئۓ خدا کی ھستی کو ثابت کرنے کا دوسرا طریقہ اختیار کرتاھے۔

قرآن کریم مختلف طریقوں سے عام لوگوں کو خدا شناسی کی تعلیم دیتا ھے اوراس سے بڑھ کر ان کے افکار کو دنیا کی آفرینش اور اس نظام کی طرف متوجہ کراتا ھے جو اس دنیا میں جاری و ساری ھے اور پھر انفس و آفاق کے مطالعہ کی دعوت دیتا ھے کیونکہ انسان اپنی چند روزہ زندگی میں جو راستہ یا طریقہ اختیار کرے یا جس حالت میں زندگی گزارے، دنیائے فطرت اور اس میں موجودہ نظام کی حکومت سے ھرگز باھر نھیں نکل سکتا اوراس کا شعور و ادراک، زمین و آسمان کے عجیب و غریب مناظر کو ھرگز نظر انداز نھیں کرسکتا۔ یہ وسیع نظام کائنات جو ھماری آنکھوں کے سامنے ھے ، اس کا ھر ایک جزء اور ذرہ کلی طور پر ھمیشہ تغیر و تبدل کا شکار ھے اور ھر لحظہ اس کی شکل و صورت دگر گوں ھو کر ایک نیا روپ دھار لیتی ھے جو پھلے سے بالکل مختلف ھوتی ھے اور پھر قوانین کے زیر اثر جس میں استثنیٰ نھیں ھے، حقیقت اور اثبات کا لباس پھن لیتی ھے اور اسی طرح بھت بلند اور دور کھکشانوں سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے ذرے تک جن سے اس جھان کی تشکیل و تکمیل ھوئی ھے، ھر چیز ایک خاص اور واضح نظام میں حرکت کرتی ھے اور اپنے قوانین کے ذریعے جس میں کسی قسم کا استثناء موجود نھیں ھے، بڑے حیرت انگیز طریقے سے یہ ساری چیزیں اپنے اپنے کام میں لگی ھوئی ھیں۔ لھذا یہ سب اشیاء اپنے دائرۂ عمل کو بھت ھی پست اور نچلی سطح سے مکمل ترین حالت کی طرف بڑھاتی چلی جاتی ھیں، یھاں تک کہ تکمیل کے آخری مرحلے تک پھنچ جاتی ھیں۔

اگر فطرت کا نظام انسان کو زمین میں جگہ دیتا ھے تو اس زمین کے وجودی ڈھانچے کو اس طرح ترکیب (مختلف اجزاء کا مجموعہ) دیتا ھے کہ اس کی زندگی اور ماحول کے ساتھ ساز گار ھو اور پھر اس زندگی اور ماحول کو اس طرح بناتا ھے کہ ایک مھربان دایہ کی طرح مھر و محبت کے ساتھ اس کی پرورش کرتے ھوئے کائنات کی ھر چیز مثلاً سورج، چاند، ستارے، پانی، مٹی، دن، رات، سال کے موسموں، بادل، ھوا، بارش، زمین کے نیچے اور زمین کے اوپر موجود ذخائر خزانے اور آخر کار اپنی قدرت و طاقت کے تمام وسائل اور سرمایہ کو اس کے آرام و آسائش کی خاطر کام پر لگائے رکھتا ھے۔ ھم ایسے رابطے اور تعلق کو دنیا کے ھر مظھر اور اس کے ارد گرد اور ھمسایہ چیزوں کے درمیان مشاھدہ کرتے ھیں یعنی دنیا کے تمام مظاھر، جن میں انسان زندگی گزارتا ھے، آپس میں مربوط ھیں۔

کائنات کے ھر مظھر کے داخلی نظام میں بھی اس قسم کا تعلق اور رابطہ موجود اور ظاھر ھے۔ اگر فطرت نے انسان کے لئے روٹی مھیا کی ھے تو اس کو حاصل کرنے کے لئے ھاتھ اور کھانے کے لئے منہ اور چبانے کے لئے دانت بھی دئے ھیں اور ان تمام چیزوں کو زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک قسم کے منظم ذرائع کے ساتھ آپس میں مرتبط کر رکھا ھے یعنی ھر چیز اپنے کمال کی طرف گامزن ھے۔

دنیا کے ماھرین اور دانشور اس امر میں کوئی شک و شبہ نھیں رکھتے کہ وہ بے شمار تجربے، جو انھوں نے اپنی چند ھزار سالہ علمی کاوشوں کے ذریعے حاصل کئۓ ھیں، فطرت اور کائنات کے اسرار میں سے ایک بھت ھی معمولی جلوہ ھیں، جس کے پیچھے ایک بھت ھی طویل اور بے انتھا سلسلہ موجود ھے جو کبھی ختم ھونے والا نھیں ھے۔ ھر تازہ انکشاف انسان کے سامنے بے شمار مجھولات (جن چیزوں کا علم نہ ھو) لے کرآتا ھے جن میں انسان گم ھوکر رہ جاتا ھے ۔کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ اس وسیع جھان ھستی (کائنات) جس کے تمام اجزاء الگ الگ ھوتے ھوئے بھی آپس میں ایک مضبوط اتحاد ، وحدت و اتصال اور حیرت انگیز اتفاق رکھتے ھیں نیز یہ سب ایک لامتناھی طاقت اور علم کو بیان کرتے ھیں، ان کا کوئی پیدا کرنے والا نھیں ھے؟ اور یہ سب کچھ اپنے آپ، عبث اور فضول پیدا ھوگیا ھے؟

آیا یہ جزئی اور کلی نظامات اور آخر کار دنیا کا عمومی نظام، جس نے دنیا کے لا متناھی اجزاء کو آپس میں مربوط اور متصل کرکے ایک بڑا متحدہ کائناتی نظام (ONE UNIT UNIVERSAL SYSTEM) بنا دیا ھے، اپنے منظم قوانین کے ساتھ جس میں کوئی استثناء موجود نھیں ھے، ھر چیز میں جاری و ساری ھے، بغیر کسی نقشے کے اتفاقیہ طور پر بن گیا ھے؟ یا ان میں سے ھر ایک مظھر نے اپنی پیدائش سے پھلے ھی اپنے لئے ایک خاص نظام اور طریقہ انتخاب کرلیا ھے؟ اور اپنی پیدائش کے بعد اس نظام کو خاص موقع و محل کے مطابق نافذ اور جاری کرتا ھے۔

البتہ وہ انسان جو ھر حادثے، واقعے اور مظھر کو ایک علت اور سبب یا حادثے سے منسوب کرتا ھے اور کبھی کبھی ایک مجھول سبب اور علت کو پیدا کرنے کے لئے مدتوں بحث، کوشش اور جستجو میں گزار دیتا ھے اور کبھی کبھی علمی کامیابیوں کے پیچھے چکر لگاتا رھتا ھے، وہ انسان جو ان چند اینٹوں کو دیکہ کر جو بڑی ترتیب کے ساتھ ایک دوسرے کے اوپر نیچے رکھی گئی ھوں، اس کو ایک طاقت اور علم کے ساتھ منسوب کرتا ھے اور اس میں ھر قسم کے اتفاق اور حادثہ کی نفی کرتے ھوئے اس کو ایک نقشے اور مقصد کا نتیجہ سمجھتا ھے، ھرگز اس بات پر تیار نھیں ھوگا کہ اس کائنات اور جھان ھستی کی پیدائش کو بے سبب اور بے علت سمجھے یا دنیا کے نظام کو ایک اتفاقیہ حادثہ خیال کرے۔



1 2 3 4 5 6 next