خدا شناسی



قرآن کریم اپنی تعلیمات میں ضرورت (جبر) کے اس حکم کو قضائے الھی کھتا ھے کیونکہ یھی جبر اور ضرورت کائنات کے پیدا کرنے اور بنانے والے کی ذات سے سرچشمہ حاصل کرتی ھے۔ اسی وجہ سے حکم اور ”یقینی قضا“ ھے جس میں کسی قسم کی خلاف ورزی یا تبدیلی ممکن نھیں ھے اور یہ بالکل عادلانہ ھے اور اس میں کسی قسم کا امتیاز یا استثناء موجود نھیں ھے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ھے: اَ لَا لَہ الْخَلقُ وَ الاَمْرُ۔ (۶)

اور پھر فرماتا Ú¾Û’:  ÙˆÙŽ اِذَا قَضیٰٓ اَمْراً فَاِنَّمَا یَقُول لَہ کُنْ فَیَکُونُ۔ (Û·)

اور پھر فرماتا ھے: وَ اللهُ یَحْکُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہ (۸)

۲۔ علت کا ھر جزء اپنے معلول (نتیجے) کے مناسب اور مطابق ھوتا ھے اور معلول کی پیدائش بھی علت کے تمام نمونوں کے مطابق ھوتی ھے جو علت تامہ نے اس کے لئے معین کر رکھے ھیں مثلاً وہ وجوھات یا علل جو انسان کے لئے سانس لینے کا باعث ھوتے ھیں وہ مکمل تنفس کو پیدا نھیں کرتے بلکہ منہ اور ناک کے ارد گرد ھوا کا ایک معین اندازہ، معینہ مکان و زمان اور شکل و صورت میں سانس کی نالی کے ذریعے پھیپھڑوں کے اندر بھیجتے ھیں اور وہ وجوھات اور علل جو دیکھنے کی قوت کو انسان کے لئے پیدا کرتے ھیں (اور انسان بھی انھی کا ایک جزء ھے) قوتِ دید کو بلا قید و شرط ثابت نھیں کرتے بلکہ اس نظر یا دید کو پیدا کرتے ھیں جو ان ذرائع کے سبب ھر طرح سے ایک خاص اندازے کے مطابق معین کی گئی ھے۔ یہ حقیقت، کائنات کے تمام مظھر اور ان حوادث و واقعات میں بغیر کسی خلاف ورزی کے جاری ھے جو اس کائنات میں رونما ھوتے ھیں۔

قرآن مجید Ù†Û’ اپنی تعلیمات میں اس حقیقت Ú©Ùˆ ”قدر“ کھا Ú¾Û’ اور خدائے تعالیٰ سے منسوب کیا Ú¾Û’ جو تمام کائنات کا سر چشمہ Ú¾Û’ جیسا کہ فرماتا Ú¾Û’ : انا Ú©Ù„ شئی خلقنا ہ بقدر (Û¹) اور پھر فرماتا Ú¾Û’ : Ùˆ ان من شئی الا عندنا خزائنہ Ùˆ ما ننزلہ الا بقدر معلوم  (Û±Û°)اور چونکہ قضائے الٰھی Ú©Û’ مطابق اس نظام کا ئنات میں ظاھر ھونے والا ھر حادثہ، واقعہ یا مخلوق ضروری الوجود اور ناقابل اجتناب Ú¾Û’ØŒ اسی طرح ”قدر“ Ú©Û’ مطابق ھر پیدا ھونے والا حادثہ یا مخلوق اپنے اس معینہ اندازے Ú©ÛŒ ھر گز خلاف ورزی نھیں کرتا جو خدائے تعالیٰ Ù†Û’ اس Ú©Û’ لئے معین کر رکھا Ú¾Û’Û”

انسان اور اختیار

انسان جو بھی کام کرتا ھے وہ اس کائنات کا مظھر ھے اور کائنات کے تمام مظاھر مخلوقات کی طرح اس کی پیدائش بھی ایک علت تامہ پر منحصر ھے لھذا اس امر کے پیش نظر کہ انسان بھی کائنات کا ایک جزء ھے اور دنیا کے تمام دوسرے اجزاء کے ساتھ جسمانی تعلق رکھتا ھے پس اس کے فعل اور کام میں دوسرے اجزاء کو بے اثر نھیں سمجھا جا سکتا۔

مثلاًانسان جوروٹی کھاتا ھے اس کام کو کرنے کے لئے جیساکہ ھاتھ ،منہ،علم،طاقت اور ارادے کا ھونا ضروری ھے اسی طرح روٹی کا وجود اور اس کے دسترس میں ھونا، رکاوٹ کا نہ ھونااور ایسے ھی دوسرے مکانی اور زمانی شرائط بھی اس عمل کے لئے ضروری ھیں اور اگر ان تمام شرائط میں سے ایک بھی شرط اور ذریعہ موجود نہ ھوتو فعل یاعمل کا ھونا محال ھو جائے گا اور ان تمام شرائط اور ذرائع کی تکمیل (علت تامہ کے اثبات کے لئے ) اس فعل اور عمل کے لئے ضروری ھیں۔

 Ø¬ÛŒØ³Ø§ کہ Ù¾Ú¾Ù„Û’ گزر چکا Ú¾Û’ کہ علت تامہ Ú©Û’ مجموعی اجزاء Ú©ÛŒ نسبت، فعل کا ضروری ھونا، انسان Ú©Û’ ساتھ فعل Ú©Û’ منسوب ھونے Ú©Û’ منافی نھیں Ú¾Û’ کیونکہ خود انسان علت تامہ Ú©Û’ اجزاء میں سے ایک Ú¾Û’ لھذا ”علت امکان“ Ú¾Û’Û”



back 1 2 3 4 5 6 next