خدا شناسی



انسان، فعل کا امکان یا اختیار رکھتا ھے اور تمام اجزائے علت کی نسبت فعل کا ضروری ھونا، اس کے بعض اجزاء کی نسبت، جو انسان ھے، فعل کے ضروری ھونے کا باعث نھیں ھوگا۔ انسان کا سادہ اور بے آلائش و پاک ادراک بھی اس نظرئے کی تائید کرتا ھے، کیونکہ ھم دیکھتے ھیں کہ انسان اپنی خدا داد فطرت اور قابلیت کے ساتھ، کھانے، پینے، آنے، جانے ، صحت ، بیماری ،بڑائی، چھوٹائی اور بلندی و پستی کے درمیان فرق کو جانتا ھے، اور پھلی قسم جو انسان کے ارادے اور خواھش کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتی ھے، انسان کے اختیار میں سمجھی جاتی ھے اور اس کی تعریف یا برائی بھی کی جاسکتی ھے بر خلاف دوسری قسم کے کہ اس میں انسان پر کسی قسم کا کوئی فرض عائد نھیں ھوتا۔

اسلام کے آغاز سے ھی اھل سنت مذھب میں انسانی افعال کے بارے میں دو مذاھب یا نظریے مشھور تھے۔ ایک یہ کہ انسان کے افعال خدا کی مرضی کے بغیر انجام نھیں پاتے اور ان کی خلاف ورزی ممکن نھیں ھے۔ لھذاانسان اپنے افعال یا اعمال میں مجبور ھے اور انسانی اختیار و ارادے کی کوئی اھمیت نھیں ھے ۔ دوسرا نظریہ یہ تھا کہ انسان اپنے افعال اور اعمال میں خود مختارھے اور انسانی افعال کو خدائی ارادے سے متعلق نہ ھوتے ھوئے ”قدر“ کے دائرے سے خارج سمجھتے ھیں لیکن اھل سنت کی تعلیم کے مطابق جو قرآن کی ظاھری تعلیم کے ساتھ پوری مطابقت رکھتی ھے، انسان اپنے افعال میں خود مختار ھے، لیکن آزاد نھیں ھے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اختیار کے ذریعے انسانی فعل کو جاری کیا ھے اور ھماری پچھلی تعبیر کے مطابق اللہ تعالیٰ نے علت تامہ کے تمام اجزاء کے ذریعے جن میں سے ایک انسان کا ارادہ اور اختیار ھے، فعل کو جاری کیا ھے اور اس کو لازمی قرار دیا ھے جس کے نتیجے میں خدا کی یہ خواھش فعل کو ضروری اور انسان کو اس میں خود مختار بنا دیتی ھے یعنی فعل اپنی علت کے تمام اجزاء کی نسبت ضروری ھو جاتا ھے اور اجزاء میں سے ایک کی نسبت، جو انسان ھے، اختیاری اور ممکن ھو جاتا ھے۔

امام ششم (ع) فرماتے ھیں:”نہ جبر ھے اور نہ ھی قدربلکہ ان دونوں کے درمیان میں ایک امر ھے“ (لا جبر و لا تفویض بل الامر بین الامرین )۔(۱۱)

حوالے

۱۔۔سورہٴ توحید /۳

۲۔ سورہ ٴ روم /۵۴

۳۔ سورہ ٴ بقرہ /۲۲۵

۴۔ سورہٴ توبہ / ۲

۵۔سورہ ٴ شوریٰ/۱۱

۶۔سورہٴ اعراف /۵۴

۷۔ سورہٴ بقرہ / ۱۷۷

۸۔ سورہٴ رعد / ۴۱

۹۔ سورہٴ قمر / ۴۹

۱۰۔ سورہٴ حجر /۲۱

۱۱۔ بحار الانوار ج/ ۳ ص/۵

 



back 1 2 3 4 5 6