خدا شناسی



اس کی وضاحت یوں ھے کہ کبھی ایک صفت خود موصوف کے ساتھ قائم ھوتی ھے، مثلاً زندگی، علم اور طاقت جو ایک زندہ، دانا اور تواناانسان کے ساتھ قائم ھیں اور ھم صرف انسان کو ھی ان کے ساتھ متصف فرض کرسکتے ھیں، اگر چہ اس کے بغیر کسی اور چیز کو فرض بھی نہ کریں اور کبھی کبھی صرف موصوف کے ساتھ ھی قائم نھیں ھے، کیونکہ اگر موصوف کو ان صفات کے ساتھ متصف کریں تو اس وقت ھمیں پھلے بعض دوسری چیزوں کو ثابت کرنے کی ضرورت پیش آتی ھے مثلاً لکھنا، بولنا اور چاھنا وغیرہ، کیونکہ انسان اس وقت تک ادیب نھیں بن سکتا جب تک دوات، قلم اور کاغذ کو فرض نہ کر لیا جائے اور اسی وقت تقریر کر سکتا ھے جب اس کے لئے سننے والے کو فرض کر لیا جائے اور اس وقت کسی چیز کو چاھتا ھے جب چاھنے والی چیز موجود ھو اور صرف ان مقامات کو ثابت کرنے کے لئے انسان کا فرض ھی کافی نھیں ھے۔

یھاں واضح ھوجاتا Ú¾Û’ کہ خداوند تعالیٰ Ú©ÛŒ حقیقی صفات (جیسا کہ Ù¾Ú¾Ù„Û’ ذکر ھوا  Ú¾Û’) عین ذات ھیں اور صرف Ù¾Ú¾Ù„ÛŒ قسم Ú©ÛŒ ھیں، لیکن دوسری قسم Ú©ÛŒ صفات جن Ú©Ùˆ ثابت کرنے Ú©Û’ لئے بعض دوسری چیزوں کا سھارا لینا ضروری ھے۔خدا Ú©Û’ سوا ھر چیز مخلوق Ú¾Û’ اور خدا Ú©Û’ سامنے  پیدا ھوئی ھیں لھذا ھر چیز اپنی پیدائش Ú©Û’ ساتھ جو صفات اپنے ساتھ لاتی Ú¾Û’ØŒ ان Ú©Ùˆ ”صفت ذات“ اور خدائے تعالیٰ Ú©ÛŒ مانند ”عین ذات“ نھیں کھا جا سکتا۔

وہ صفات جو خدائے تعالیٰ کے لئے کائنات کی پیدائش کے بعد ثابت اور منسوب ھوتی ھیں مثلاً آفریدگار، کردگار، زندہ کرنے والا، مارنے والا اور روزی دینے والا وغیرہ عین ذات نھیں ھیں بلکہ ذات کے علاوہ ھیں اور ان کو ”صفت فعل“ کھا جاتا ھے۔

صفت فعل کا مطلب یہ ھے کہ فعل کے ثابت اور عملی ھونے کے بعد، صفت کے معنی فعل سے حاصل کئے جاتے ھیں نہ کہ ذات سے مثلاً آفریدگار جو کائنات اور مخلوقات کی پیدائش ثابت ھو جانے کے بعد خدا کے آفریدگار (پیدا کرنے والا) ھونے کے معنی اس سے ماخوذ ھوتے ھیں اور یہ معنی صرف مخلوقات کے ساتھ قائم ھیں نہ کہ خدا وند پاک کی مقدس ذات کے ساتھ کیونکہ اگر ایسا ھو تو ذات میں بھی صفت کے ساتھ ساتھ تبدیلی واقع ھوجائے گی۔

شیعہ، دو صفات یعنی ”ارادہ“ اور ”کلام“ اور ان سے حاصل ھونے والے معانی کو صفتِ فعل جانتے ھیں۔ کیونکہ ارادہ چاھنے کے معنی میں ھے اور کلام کا مطلب ھے ”الفاظ کا انکشاف“ اور علمائے اھل سنت ان صفات کو علم کے معنی میں لیتے ھیں اور ان کو ”صفت ذات“ کھتے ھیں۔

قضا و قدر

کائنات میں علت اور سبب کا قانون بغیر کسی استثناء کے حکم فرما اور جاری ھے۔ اس قانون کے مطابق اس جھان کا ھر مظھر یا مخلوق اپنی پیدائش میں ایک سبب یا علت پر منحصر ھے ۔ فرض کریں اگر یہ سبھی اسباب پورے ھو جائیں (جس کو علت تامہ کھتے ھیں) تو مخلوق کی پیدائش (معلول و مفروض) ضروری یا جبری ھوجاتی ھے اور اگر فرض کریں کہ یہ سب یا ان میں سے بعض اسباب موجود نہ ھوں تو مذکورہ مخلوق کی پیدائش محال ھوجاتی ھے۔

اس نظریہ میں تحقیق اور جستجو کے بعد ھمارے لئے مندرجہ ذیل دوامر واضح ھو تے ھیں:

۱۔اگر ھم ایک مخلوق (معلول) کو مجموعی علت تامہ اور اسی طرح علت تامہ کے اجزاء کے ساتھ پرکھیں تو علت تامہ کے ساتھ اس کی نسبت (رشتہ) ”نسبت ضرورت“ (جبر) پر ھوگی اور علت تامہ کے تمام اجزاء کو (جن کو علت ناقصہ کھا جاتا ھے) کے ساتھ اس کی نسبت ”نسبت امکان“ کی ھوگی کیونکہ ھر علت کا ایک جزء ، معلول کی نسبت صرف امکانی وجود رکھتا ھے نہ کہ ضرورت وجود (جبری پیدائش) ۔

بنابر ایں یہ کائنات جس کے اجزاء کا ھر مظھر اپنی پیدائش میں اپنی ”علت تامہ“ کے ساتھ لازمی تعلق رکھتا ھے اور اس کی پیدائش میں ایک ضرورت کار فرما ھے ۔ اس کا جسم ایک قسم کے قطعی اور ضروری حوادث پر منحصر ھے لھذا اس کے اجزاء میں ”صفت امکان“ (وہ مظاھر جو اپنی علت کے علاوہ کسی اور علت کے ساتھ نسبت اور تعلق رکھتے ھیں) محفوظ رھتی ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 next