خاک کربلا پر سجده



۳۔ توحید کے مقدس نظام کی حمایت اور اسلام جب بنی امیہ کے ہاتھوں طوفان بدعت تحریف کے سیلاب میں غرق ہو رہا تھا تو اس وقت امام حسین بن علی علیہ السلام اپنے باوفا اعوان و انصار کے ساتھ اس کی حفاظت کے لئے میدان میں ٓآگئے۔ اور اسلام کی بقاء اور رضائے خداوندعالم کے حصول کے لئے اپنی شہادت کا جام نوش فرمانے پر رضامند ہوگئے( آپ نے اسلام کو سیراب کر دیا اگر چہ خود پیاسے شہید ہو گئے )لہٰذا ان کی یاد تازہ رکھنا ۔اور ان کے آثار کو حفاظت کرنا شریعت اسلام کی حفاظت کرنے کے مترادف ہے ، امام حسین (ع) مدینہ سے نکلنے کا مقصد اس طرح بیان کرتے ہیں ، ”میںبلاوجہ اور بدون ہدف نہیں نکلا ۔اور نہ ہی فتنہ و فساد برپا کرنے کے لئے روانہ ہوا ہوں۔ بلکہ میں نکلا ہوں تاکہ اپنے جد رسول خدا (ص) کی امت کی اصلاح کروںاورنیکی کا حکم دوں اور برائی سے منع کروں ۔اور اپنے نانا رسول خد ااور بابا علی مرتضیٰ (ع) کی سیرت کو زندہ کروں۔“ (۷)

اے کاش! مسلمان خدا کے لئے سجدہ میں خاک کربلا کی عظمت کو بروئے کار لاتے ہوئے نماز میں اپنی پیشانی کو اس مقدس مٹی پر رکھے کہ جس میں اولیاء اللہ نے دین اسلام کی سربلندی اور کلمہٴ لاالہ الا اللہ کی برتری کے لئے اپنی جان، مال، اولاد، انصاراور اصحاب حتیٰ اپنا سب کچھ قربان کردیا ۔

اس خاک مقدس پر سجدہ کرنے سے آزادی و شرافت اور دین اسلام و قرآن کی حفاظت کا درس ملتا ہے ۔ اس بنا پر خاک کربلا پر سجدہ کرنا نہ فقط توحید کے دائرہ سے باہر نہیں نکالتا بلکہ یہ دین اسلام کی مخلصانہ حفاظت اور اللہ کی عبادت کا سبق دیتا ہے ، اور مسلمانوں کو بصیرت و آگاہی کی روشنی میں نئے جذبات کے ساتھ فدا کاری و جانبازی اور اسلام و قرآن او رعبادت کردگار کی حفاظت کی طرف دعوت دیتاہے ۔

مذکورہ بحثوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ شیعوں کا مٹی اور خاک کربلا پر سجدہ کرنا، پیغمبر (ص) کی سنت و سیرت اور اہل بیت کی سیرت عقل سلیم کے مطابق ایک شرعی و منطقی امرہے ، اور توحید پروردگار کے عین مطابق ہے ۔

آیۃ اللہ علامہ امینی رحمۃاللہ علیہ اپنی بہترین کتاب”سیرتنا و سنتنا“میں فرماتے ہیں:وہ مٹی جس پر سجدہ کرنا جو خدا سے تقرب کا باعث ۔اور اس کی رضا کے حصول کا سبب۔ خضوع و بندگی کے لئے مناسب۔ اور دین خدا اور مقدسات اور حریم اسلام کے تحفظ کا ضامن ہو۔تو کیا ایساسجدہ مناسب نہیں ہے ؟ جو زمین رموز کردگار کی عظمت کا گہوارہ ہو۔اپنے اندر حکمت الٰہی کوسمیٹے ہو۔ اور خدا وندعالم کے سامنے فروتنی کے عظیم اسرار کا مر کز ہو۔ تو کیا ایسی زمین پر سجدہ ا،للہ کی عبادت کے لئے اولی تر نہیں ہے ؟

کیا ہمارے لئے بہتر نہیں ہے کہ ایسی زمین پر سجدہ کریں جو توحید کی پرچم دار اور اس کی راہ میں فدا کاری سکھاتی ہو ؟

کیا ہم ایسی زمین پر سجدہ نہ کریں جو ہمیں مہربانی و رحم دلی و الفت و محبت و شفقت و عطوفت کی طرف دعوت دیتی ہے؟ (۸)

اسی طرح دوسرے شیعہ عالم دین علامہ کا شف الغطاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: شیعہ کربلا کی مٹی پر سجدہ کرنے کو افضل اور مستحب جانتے ہیں شاید اس کا راز یہ ہو کہ مذکورہ دلائل اور وہ روایتیں جو کربلا کی مٹی پر سجدہ کرنے کو افضل قرار دیتی ہیں۔ نظافت و پاکیزگی میںدنیا کی ساری زمینوں کے مقابلہ کربلا کی زمین زیادہ پاک و پاکیزہ ہے ۔ اور ان بلند ہدف و مقصد کے پیش نظر بھی اسی مٹی پر سجدہ کرنا ۔کیونکہ جب انسان نماز میں اپنی پیشانی کو خاک کربلا پر رکھتا ہے تو اس کے ذہن میں ظلم و ستم کے مقابل کھڑے ہونے کی جراٴت، دین اسلام کی حفاظت کا جذبہ ،اوراس عظیم امام اور ان کے اصحاب و انسار کی قربانی و فداکاری کا تصور ذہن میں گردش کرتا ہے ۔ (۹)

خاک کربلا اور اس سے برکت حاصل کرنا

یہاں پر ایک دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ: خاک کربلا پر سجدہ کرنا اس کی افضلیت و برتری کے سبب مستحب قرار دینااس سے بر کت حاصل کر نا نہیں ہے اور اس کو تبرک و شفاء کے لئے پاس میں رکھنا اور چومنا وغیرہ صحیح ہے ؟ یا اولیاء اللہ کے باقی ماندہ آثار کو بوسہ دینا ان کا احترام کرنا توحید پروردگار کے مطابق ہے ؟

اس سوال کے جواب کو ہم اولیاء اللہ اور رہبران اسلام و محبان خدا سے بر کت کے تذکرہ کے ضمن میں بیان کر رہے ہیں آثار اولیائے خدا ،یا شعائر الٰہی کو تبرکا ً و تیمنا ً َچومنا اور مس کرنا کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے ۔بلکہ اس کی شبیہ کوآنحضرت (ص)،اور آپ کے اصحاب کرام کے درمیان دیکھا جا سکتا ہے ۔ نہ فقط رسول خد ا (ص) اور آپ کے اصحاب نے ایسا کیا ہے۔ بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ گذشتہ انبیاء نے بھی اس کو جامہ عمل پہنایا ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 next