قرآن مجید میں بعض خواتین کا تذکرہ

حافظ ریاض حسین نجفی


دختر جناب شعیب

حضرت شعیب کی خدمت میں موسیٰ کی آمد۔ شعیب کی طرف سے شادی کی پیش کش۔حق مہر کا تعین۔کئی سال کا کام۔پھر واپس روانگی۔ راستہ میں بچے کی ولادت اور نبوت کا ملنا ان واقعات میں موسیٰ کی ماں کا مامتا پر ضبط، خواہر موسی کی جفا کشی اور خبر داری پھر زوجۂفرعون کا ہر مرحلہ میں حضرت موسیٰ کا تحفظ۔ان مراحل میں عورت کی عظمت، عورت کی محبت و ایثار اور نبی کی جان کے تحفظ۔ایسے واقعات ہیں جن سے عورت کی عظمت واضح و آشکار ہوتی ہے۔

 

تزویج موسیٰ

قَالَتْ إِحْدَاہُمَا یَاأَبَتِ اسْتَأْجِرْہُ إِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْأَمِیْنُ قَالَ إِنِّی أُرِیْدُ أَنْ أُنْکِحَکَ إِحْدَی ابْنَتَیَّ ہَاتَیْنِ عَلٰی أَنْ تَأْجُرَنِی ثکَلنِیَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِکَ وَمَا أُرِیْدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَیْکَ سَتَجِدُنِیْ إِنْ شَاءَ اللہ مِنَ الصَّالِحِیْنَ قَالَ ذٰلِکَ بَیْنِیْ وَبَیْنَکَ أَیَّمَا الْأَجَلَیْنِ قَضَیْتُ فَلاَعُدْوَانَ عَلَیَّ وَاللہ عَلٰی مَا نَقُوْلُ وَکِیْلٌ

"ان دونوں میں سے ایک لڑکی نے کہا اے ابا اسے نوکر رکھ لیں کیونکہ جیسے آپ نوکر رکھنا ہو تو ان سب سے بہتر وہ ہے جو طاقت ور، امانت دار ہو شعیب نے کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں ایک کا نکاح اس شرط پر تمہارے ساتھ کروں کہ تم آٹھ سال میری نوکری کرو اور اگر تم دس سال پورے کرو تو یہ تمہاری مرضی ہے اور میں تمہیں تکلیف نہ دوں گا انشا ء اللہ تم مجھے صالحین میں سے پاؤ گے۔موسیٰ نے کہا یہ میرے اور آپ کے درمیان وعدہ ہے میں ان دونوں میں سے جو بھی مدت پوری کروں مجھ سے کوئی زیادتی نہ ہو اور یہ جو کچھ ہم یہ کہہ رہے ہیں اس پر اللہ ضامن ہے۔" (قصص:۲۶تا۲۸)

فَلَمَّا قَضٰی مُوْسَی الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَہْلِہ آنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا قَالَ لِأَہْلِہ امْکُثُوْا إِنِّیْ آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْ آتِیْکُمْ مِّنْہَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَۃ مِنَ النَّارِ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُونَ فَلَمَّا أَتَاہَا نُودِی مِنْ شَاطِئِی الْوَادِ الْأَیْمَنِ فِی الْبُقْعَۃ الْمُبَارَکَۃ مِنَ الشَّجَرَۃ أَنْ یَّامُوسٰی إِنِّیْ أَنَا اللہ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ وَأَنْ أَلْقِ عَصَاکَ فَلَمَّا رَآہَا تَہْتَزُّ کَأَنَّہَا جَانٌّ وَّلّٰی مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ یَامُوْسٰی أَقْبِلْ وَلَاتَخَفْ إِنَّکَ مِنَ الْآمِنِیْنَ اُسْلُکْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَاءَ مِنْ غَیْرِ سُوْءٍ۔

"پھر جب موسیٰ نے مدت پوری کی اور وہ اپنے اہل کو لیکر چل دیے تو کوہ طور کی طرف سے ایک آگ دکھائی دی وہ اپنے اہل سے کہنے لگے ٹھہرو میں نے ایک آگ دیکھی ہے شائد وہاں سے کوئی خبر لاؤں یا آگ کا انگارہ لے کر آؤں تاکہ تم تاپ سکو جب موسیٰ وہاں پہنچے تو وادی کے دائیں کنارے ایک مبارک مقام میں درخت سے ندا آئی اے موسیٰ میں ہی عالمین کا پر ورد گار اللہ ہوں۔ اور اپنا عصا پھینک دیجیے پھر جب موسیٰ نے عصا کوسانپ کی طرح حرکت کرتے دیکھا تو پیٹھ پھیر کر پلٹے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا ہم نے کہا اے موسیٰ آگے آیئے اور خوف نہ کیجیے یقیناً آپ محفوظ ہیں اے موسیٰ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈل دیجیے وہ بغیر کسی عیب کے چمکدار ہو کر نکلے گا۔" (قصص: ۲۹ تا ۳۲) حضرت موسیٰ کے واقعہ کا عجیب منظر ہے۔ایک طرف ماں کی مامتا پھر بہن کی جفا کشی اور بھائی کے صندوق کے ساتھ چل کر اپنی محبت کا ثبوت۔ آسیہ کا اخلاص اور نور کی چمک سے اس کے دل کی روشنی پھر مصیبت میں مبتلا حضرت موسیٰ کو ان کی نیکی۔بے چاروں کی مدد سے اب شفیق و مہرباں بزرگ سے ملاقات۔ جس نے ان کے کام سے خوش ہو کر داماد بنا لیا۔ جہاں حضرت موسیٰ جیسے بیٹے اور داماد کی طرح آٹھ دس سال سکون سے رہے۔ قدم قدم عورت وسیلہ سکون و راحت حضرت موسیٰ بن رہی ہے۔ کیا کہنا عظمتِ عورت کا۔ (۱۱) ملکۂسبا حضرت سلیمان کی حکومت عظیم تھی چرند پرند حیوانات جن وغیرہ انکے تابع ، جب سفر کر تے ہوا کے دوش پر سوار سائیباں کے طور پر پرندے بالا سر ہوتے تاکہ دھوپ سے بچ جائیں ،جگہ خالی دیکھی معلوم ہوا کہ ہد ہد نہیں ہے۔ ناراضگی کا اظہار کیا ہد ہد نے حاضری کے بعد ملکہ سبا کی حکومت کا تذکرہ کیا۔ ارشا د رب العزت۔

إِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَأَۃ تَمْلِکُہُمْ وَأُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ وَّلَہَا عَرْشٌ عَظِیمٌ وَجَدْتُّہَا وَقَوْمَہَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللہ۔

" میں نے ایک عورت دیکھی جو ان پر حکمران ہے اسکے پاس ہر قسم کی نعمت موجود ہے اور اسکاایک عظیم الشان تخت ہے میں نے دیکھا کہ وہ اور اسکی قوم اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں۔ " (نمل: ۲۲ تا ۲۳) حضرت سلیمان نے خط دیا کہ وہاں ڈال آئے۔ خط کا مضمو ن إِنَّہ مِنْ سُلَیْمَانَ وَإِنَّہ بِاِسْمِ اللہ الرَّحْمَانِ الرَّحِیْمِ أَلاَّ تَعْلُوْا عَلَیَّ وَأْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ۔ (ملکہ نے کہا دربار لگاؤ میری طرف ایک محترم خط آیا ہے یہ سلیمان کی جانب سے ہے اور وہ یہ ہے) خدا کے رحمان و رحیم کے نام سے شروع۔ تم میرے مقابلہ میں بڑائی مت کرو اور فرماں بردار ہو کر میرے پاس چلے آؤ۔ (نمل: ۳۰ تا ۳۱) امراء و وزراء سے مشورہ کیا۔ عام طور پر بادشاہ جب کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو معزز لوگ بھی ذلیل ہو جاتے ہیں۔ طے ہوا کہ ہدیہ بھیج کر دیکھا جائے کہ کیا صورت حال ہے۔ حضرت سلیمان نے ہدیہ قبول نہیں کیا۔ فرمایا کون ہے۔ جو تخت بلقیس کو لائے۔ عفریت (جو جن تھا)کہنے لگا میں حاضر۔ لیکن ایک وزیر آصف بن برخیا تھا عرض کرنے لگا۔ پلک جھپکنے میں پیش کر سکتا ہوں پھر دیکھا کہ تخت سامنے موجود ہے۔ جب ملکہ بھی آ گئی۔ تو اسے محل کی طرف بلایا گیا۔ ارشاد رب العزت :

قِیْلَ لَہَا ادْخُلِی الصَّرْحَ فَلَمَّا رَأَتْہُ حَسِبَتْہُ لُجَّۃ وَّکَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْہَا قَالَ إِنَّہ صَرْحٌ مُمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِیْرَ قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ .

"ملکہ سے کہا گیا محل میں داخل ہو جائیے۔ جب سامنے محل کو دیکھا تو خیال کیا کہ وہاں گہرا پانی ہے اور اس نے اپنی پنڈلیاں کھول دیں۔ سلیمان نے کہا یہ شیشہ سے مرصع محل ہے۔ ملکہ نے کہا۔ پروردگار میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اب میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین پر ایمان لاتی ہوں۔" (نمل:۴۴) جب تک یہ عورت سورج پرست تھی۔ کافرہ مشرکہ سزا کی مستوجب جب ایمان لائی۔ صالح عمل بجا لائی تو بارگاہ رب العزت میں معزز و مکرم ٹھہری۔ اصل مسئلہ ارتباط بہ خدا ہے اور یہاں مرد و عورت میں مسابقت ہے پس جو بازی لے جائے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next