حکومت آل سعود٬ فیصل سے عبد العزیز بن سعود تک



ادھر عربی طالب علم پیرِس میں ایک انجمن بنانے Ú©ÛŒ فکر میں پڑگئے، اسی طرح مصر Ú©ÛŒ ”لامرکزی جمعیت“ Ú©Ùˆ پیشکش Ú©ÛŒ کہ عربوں Ú©Ùˆ ان Ú©Û’ حقوق ملنے چاہئے، چنانچہ اس جمعیت Ú©ÛŒ شورائے عالی Ù†Û’ ان Ú©ÛŒ اس پیش Ú©Ø´ Ú©Ùˆ قبول کرلیا، اور اپنی طرف سے Ú©Ú†Ú¾ نمائندے بھی پیرِس بھیج دیئے اور  ۱۹۱۳ء میں پیرِس Ú©ÛŒ جمعیت جغرافیائی Ú©Û’ بڑے ھال میں طلباء Ú©ÛŒ انجمن تشکیل پائی۔

ان تمام چیزوں کو دیکھتے هوئے عثمانیوں نے مزید شدت عمل اختیار کرلی اور بیروت میں بعض اصلاح طلب افراد کو گرفتار کرلیا ، لیکن عوام کی طرف سے عکس العمل یہ هوا کہ بازاز بند هوگئے ، چنانچہ عثمانیوں نے سوچا کہ کسی دوسرے راستہ کو اپنایا جائے اور وہ یہ کہ عربوں کے ساتھ ظاھری طور پر صلح ودوستی کی جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ دوسری تدبیریں بھی کی جائیں، اور ان کا یہ حیلہ کارگر بھی ثابت هوا، اوروہ یہ کہ خود اصلاح طلب لوگوں میں اختلاف هوگیا، مذکورہ تدبیر یہ تھی کہ ان میں سے بعض لوگوں کو بلند مقام دیا جائے مثلاً سید عبد الحمید زھراوی جو پیرس انجمن کے صدر تھے ان کو مجلس اعیان کا ممبر بنادیا گیا اور دوسرے چند اصلاح طلب جوانوں کو اھم کاموں میں مشغول کردیا گیا۔

یہ دیکھ کر عرب کے جوانوں میں ان کی نسبت غصہ بھڑک اٹھا اور انھوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ انھوں نے امانت میں خیانت کی ھے (جس کی وجہ سے ان لوگوں کو یہ بڑے بڑے عہدے مل گئے) جبکہ ھم لوگوںکو ان پر اعتماد تھا۔

ان تمام واقعات کو کچھ ھی دیر گذری تھی کہ عالمی جنگ شروع هوگئی، [11] اور جیسا کہ ھم بعد میں بیان کریں گے عثمانی حکومت کی حالت بدل گئی۔



[1] تاریخ المملکة العربیة السعودیہ جلد اول ص ۳۸۸۔

[2] تاریخ المملکة العربیة السعودیہ، جلد دوم ، ص ۲۵ تا ۲۹ کا خلاصہ۔

 

[3] اس واقعہ کی تفصیل کتاب تاریخ المملکة العربیة السعودیہ، جلد دوم از ص ۳۰ تا۴۳ ، اور کتاب جزیرة العرب فی القرن العشرین از ص ۲۷۲ سے ۲۷۵ تک بیان

[4] حافظ وھبہ صاحب اس سلسلہ میں کھتے ھیں ( ص ۲۷۵، Û²Û·Û¶) کہ انگلینڈ Ù†Û’ ایک سال Ù¾Ú¾Ù„Û’ یعنی  Û±Û²Û±Û¶Ú¾ میں جدّہ میں اپنی نمایندگی (سفارت) قائم کرلی تھی ( تاریخ مکہ ج۲ ص۱۰۱) لیکن امین ریحانی Ú©Û’ بقول :ابن سعود Ù†Û’ اپنی حکومت Ú©Û’ آغاز میں کسی دوسرے ملک Ú©ÛŒ قونصل اور نمایندگی Ú©Ùˆ قبول نھیں کیا اور خود انگلینڈ Ú©ÛŒ نمایندگی بھی (جو اس Ú©Û’ اور انگلینڈ Ú©Û’ وزارت خارجہ Ú©Û’ درمیان واسطہ تھا)بحرین میں تھی۔

[5] جزیرة العرب فی القرن العشرین ص ۲۷۶، Û²Û·Û·ØŒ انگلینڈ اور سعودی عرب Ú©ÛŒ حکومت میں رابطہ کا آغاز   Û±Û¹Û±Û´Ø¡ سے هو چکا تھا جیسا کہ Ú¾Ù… Ù†Û’ اس بات Ú©Ùˆ Ù¾Ú¾Ù„Û’ بھی عرض کیا لیکن Ù¾Ú¾Ù„ÛŒ عالمی جنگ Ú©Û’ شروع هوتے Ú¾ÛŒ یہ رابطہ مستحکم اور مضبوط هوتا گیااور انگلینڈ Ú©ÛŒ حکومت Ú©Û’ نمائندہ ھمیشہ ابن سعود Ú©Û’ پاس آتے رھے اور آپس میں گفتگو هوتی رھی ØŒ اور اسی زمانہ میں انگلینڈ Ú©Û’ شریف حسین سے بھی اچھے تعلقات تھے او رانھوں Ù†Û’ حجاز Ú©Û’ انقلاب میں (جس Ú©ÛŒ شرح بعد میں آئے Ú¯ÛŒ) اس Ú©ÛŒ مدد Ú©ÛŒ ØŒ جس Ú©ÛŒ بعض تفصیل تاریخ نجد (تالیف سنٹ جَون فیلبی) ص Û³Û±Ûµ میںذکر Ú©ÛŒ گئی Ú¾Û’Û”

[6] قارئین کرام مزید تفصیل کے لئے شفاء الغرام فاسی جلد ۲ ص ۱۶۲، تا ۱۹۳ پر رجوع فرمائیں۔

[7] اس زمانہ میں شریف کا اطلاق صرف سید پر هوتاتھا ، اور آل علی ں کے علاوہ کسی کو شریف نھیں کھا جاتا تھا۔

[8] حافظ وھبہ ص ۱۶۶ سے۔

[9] تاریخ مکہ Ú©Û’ مطابق شریف عون Ú©Û’ زمانہ میں مسجد الحرام میں Ú©Ú†Ú¾ تغیر او رتبدیلی بھی دی گئی منجملہ یہ کہ اس سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ تک عورتوں Ú©Û’ نماز Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ Ú©Û’ لئے ایک مخصوص جگہ تھی اور اس حصے میں ایک دیوار تھی ØŒ جس Ú©ÛŒ وجہ سے عورتوں Ú©ÛŒ نماز Ú©ÛŒ جگہ الگ هوجاتی تھی، لیکن  Û±Û³Û°Û±Ú¾ میں شریف عون Ù†Û’ اس دیوار Ú©Ùˆ ختم کردیا۔

[10] حافظ وھبہ صاحب کھتے ھیں کہ (ص ۱۶۹، ۱۷۰) لیکن صلاح الدین مختار نے شریف حسین کو ایک خود خواہ اور خود پسند انسان بتایا ھے اور کھا ھے کہ جس وقت اس کو ”عقبہ“میں تبعید (جلا وطن) کیا گیا میں اس کے دیدار کے لئے گیا اور جب میں نے اس سے مصافحہ کیا تو اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے مجھے گھور کر دیکھا اور اشارہ کیا کہ میرا ھاتھ چومو، لیکن میں نے نہ چوما، موصوف عقبہ میں موجود بندرگاہ کے منتظمین اور وھاں پر موجود سپاہ کے سردار کے کاموں میں مداخلت کیا کرتے تھے اور اپنے بیٹے کو جو جدّہ میں تھا اس کے لئے فرمان بھیجتے رھتے تھے۔ (ج ۲ ص ۲۹۵)

[11] جزیرة العرب فی القرن العشرین ، ص ۱۷۱، ۱۷۵۔



back 1 2 3 4 5 6