امام ابو حنیفہ (رہ) حنفی مسلک کے موسس و رئیس

سيد حسين حيدر زيدي


اس بات کے پیش نظر کہ ان کے والد (۲۰) کے گھرانے کے مالی حالات مضبوط تھے، طبیعی ہے کہ ان کے والد کی خواہش اور آرزو ہوگی کہ وہ اعلی تعلیم حاصل کریں حالانکہ ان کے گھرانے میں حصول علم کا کوئی رواج نہیں تھا لہذا اس امر کے حصول کے اسباب کا فراہم ہونا لازمی و ضروری تھا۔ ابتداء میں تو آپ مسجدوں میں کبھی کبھی تشکیل پانے والے دروس اور جلسات میں شرکت کیا کرتے تھے اور انہیں جلسات میں انہیں اپنی استعداد کا علم ہوا اور علماء بھی ان کی ذکاوت کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں حصول علم و دانش کی طرف رغبت دلائی۔ در حقیقت ان کا شوق شعبی (۲۱) جیسے دانشمند کی تشویق کی وجہ سے اس طرف مائل ہو گیا اور آپ ہمہ تن اس کے حصول میں لگ گئے۔

اس دور میں علمی و تعلیمی حلقے تین شعبوں میں نمایاں تھے:

۱۔ اصول عقائد کی بحث میں، معاشرہ کے مختلف فرق و مذاہب کے اعتقادات پر بحث و گفتگو کی جاتی تھی۔

۲۔ علماء حدیث کے حلقے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث کو ان کی فقہی جہات پر توجہ دئیے بغیر نقل اور بیان کرتے تھے اور احتمالا اس طرح کے حلقے کوفے میں زیادہ نہیں تھے۔

۳۔ کتاب و سنت سے فقہی مسائل کے استنباط کے حلقے۔ (۲۲)

ابو حنیفہ نے شروع میں ایک مدت تک اصول عقاید کے دروس و حلقات میں شرکت کی۔ اس زمانہ کی بین النہرین کی سیاسی فضا اور فرقہ گرایی نے علم کلام کو ایک کشش عطا کر دی تھی، لیکن مختلف اسباب (۲۳) کی بناء پر انہوں نے علم کلام کو ترک کر دیا اور فقہ کی طرف زمینہ فراہم ہونے کی وجہ سے اس طرف مائل ہو گئے۔ خطیب بغدادی اس تبدیلی کی دلیل پیش کرتے ہوئے اس کا ذکر اس طرح سے کرتے ہیں:

پھر میں Ù†Û’ علم کلام میں مہارت حاصل Ú©ÛŒ اور علم Ú©Û’ معروف افراد میں میرا شمار ہونے لگا، میرا حلقہ درس حماد بن حسن بن ابی سلیمان (Û²Û´) Ú©Û’ حلقہ درس سے نزدیک تھا، ایک دن ایک عورت میرے پاس آئی اور اس Ù†Û’ مجھ سے طلاق Ú©Û’ بارے میں سے ایک فقہی سوال کیا، جس کا میں جواب نہیں دے سکا اور اسے معلوم کرنے Ú©Û’ لیے حماد Ú©Û’ پاس بھیجنا پڑا اور میں Ù†Û’ اس سے کہا کہ جواب ملنے Ú©Û’ بعد وہ مجھے ضرور بتائے کہ کیا اسے کیا جواب ملا ہے۔ اس Ù†Û’ ایسا ہی کیا لیکن میں Ù†Û’ اس Ú©Û’ بعد سے یہ فیصلہ کیا کہ میرے لیے علم کلام بہت ہو گیا اور حماد Ú©ÛŒ شاگردی اختیار کر Ù„ÛŒ اور Ú©Ú†Ú¾ عرصہ Ú©Û’  بعد میں اس Ú©Û’ بہترین شاگردوں میں شامل ہو گیا، اس لیے کہ میں درس میں محنت کرتا، اس کا مباحثہ کرتا، یہاں تک کہ میں Ù†Û’ مسلسل دس سال  ان Ú©Û’ درس میں گزارا۔ (Û²Ûµ)

المنتظم فی التواریخ الملوک و الامم کے مصنف (۲۶) نے آپ کے درس قفہ میں شرکت کی ایک اور وجہ بیان کی ہے، جس میں ان کے فقہ کی طرف متوجہ ہونے کا سبب معاشرہ میں فقہ کی اہمیت اور فقہاء کے جوانی و پیری میں احترام و اکرام کو قرار دیا ہے۔ (۲۷) منابع تاریخی ابو حنیفہ کو تابعین مین شمار کرتے ہیں، تابعی وہ ہے جس نے صحابہ کو دیکھا ہو، جبکہ اس بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے، قاضی ابو یوسف (۲۸) سے نقل ہوا ہے کہ میں نے امام ابو حنیفہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: میں سن اسی ھجری قمری میں پیدا ہوا اور سن ۹۶ ھجری قمری میں اپنے والد کے ہمراہ حج کا سفر کیا اور جب ہم مسجد حرام میں داخل ہوئے تو میں ایک وہاں ایک بڑا حلقہ درس دیکھا، میں نے اپنے والد سے پوچھا یہ حلقہ درس کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: عند اللہ بن جزء زبیدی، صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں، میں آگے بڑھا اور میں نے انہیں رسول خدا (ص) سے یہ حدیث نقل کرتے ہوئے سنا: من تفقہ فی دین اللہ کفاہ اللہ ھمہ و رزقہ من حیث لا یحتسب۔ (۲۹)

اگر چہ حماد بن ابی سلیمان کا شمار ابو حنیفہ کے مہم ترین استادوں میں ہوتا ہے، لیکن انہوں نے دوسرے اساتذہ سے کسب علم و دانش کیا ہے۔ جمال الدین یوسف مزی (۳۰) صاحب تہذیب الکمال فی اسماء الرجال نے ابو حنیفہ کے اساتذہ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے جس میں بہت سے مشہور افراد جیسے طاووس بن کیسان (۳۱)، عاصم بن النجود (۳۲)، عکرمہ مولی ابن عباس (۳۳)، محمد بن مسلم شہاب زھری (۳۴) اور اسی طرح سے شیعہ اماموں میں سے ابی جعفر محمد بن علی بن حسین (۳۵) اور زید بن علی بن حسین (۳۶) کا ذکر کیا گیا ہے۔ (۳۷)

خلیفہ عباسی ابو جعفر منصور نے امام ابو حنیفہ سے پوچھا کہ آپ نے علم کس سے حاصل کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا: حماد بن ابی سلیمان اور عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، عبد اللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عباس کے شاگردوں سے۔ (۳۸) اور جیسا کہ اس سے پہلے بھی ذکر کیا گیا کہ ابو حنیفہ کے مہم ترین اور مشہور ترین استاد اور شیخ حماد بن ابی سلیمان تھے اور انہوں نے فقہ و دانش کو ابراہیم نخعی (۳۹) سے حاصل کیا۔ ابراہیم کا شمار اپنے زمانہ کے سب سے دانا اصحاب رای میں ہوتا ہے ان کا انتقال سن ۱۲۰ ھجری قمری مطابق ۷۳۸ عیسوی میں ہوا۔ اسی طرح سے ابو حنیفہ نے فقہ میں شعبی کے محضر سے استفادہ کیا، جبکہ ابراہیم اور شعبی نے شریح (۴۰)، علقمہ بن قیس (۴۱) اور سروق بن اجدع (۴۲) سے استفادہ کیا اور اور یہ سب عبد اللہ بن مسعود (۴۳) اور علی بن ابی طالب علیہ السلام کے شاگرد تھے۔ اور ان دونوں صحابیوں نے کوفے میں سکونت کے عرصہ میں فقہ کے مضبوط ستون کی بنیاد ڈالی۔ (۴۴) البتہ عبد اللہ بن مسعود کی طولانی اقامت کا اس میں زیادہ اہم اور موثر کردار رہا ہے۔ (۴۵)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next