مذہب اشعری اور معتزلہ میں تبدیلیاں

سید حسین حیدر زیدی


غزالی کی باطنیان اور فلاسفہ سے دشمنی اصل میں حکومت فاطمی قاہرہ سے دشمنی کرنا تھا کیونکہ وہ فلاسفہ کی حکومت کی حفاظت کررہے تھے اور باطنی کے اصول وعقاید سے اپنے فائدہ اٹھا رہے تھے ۔

” تاریخ فلسفہ در جہان اسلامی“ کے مولفین نے بھی غزالی کی باطنیہ سے مخالفت کے متعلق کہا ہے : اسلام کو زنادقہ اور مجوس کے مقابلہ میں باطنیہ سے زیادہ خطرہ نہیں تھا بلکہ اگر خطرہ تھا تو وہ اسلام سے زیادہ خلافت کو خطرہ تھا ۔ غزالی نے باطنیہ کے مقابلہ میں جو جنگ شروع کی تھی اس میں دین سے زیادہ سیاسی پہلو پایا جاتا تھا ۔ یہ بات ان کی کتاب ” المستظھریہ“ یا فضائح الباطنیہ و فضائل المستظھریہ“ سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے ۔

Û³Û”  اشاعرہ Ú©ÛŒ عقل محوری

اگر چہ ظاہر پر عمل کرنے والوں (اہل حدیث) کی معتزلہ پر کامیابی کے بعد عقل پر عمل کرنے والوں کا ستارہ غروب ہوگیا لیکن کامل طور سے ختم نہیں ہوا اور یہی نہیں بلکہ صدیوں بعد تک معتزلہ کے ماننے والے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مذہب کا دفاع کرتے رہے بلکہ اشاعرہ کے متکلمین کے درمیان کچھ برجستہ چہرے ایسے تھے جو تفکر عقلائی کے قائل تھے اور بعض جگہوں پر اشاعرہ کے عقاید کی مخالفت کرتے یا اس کی اصلاح کرنا چاہتے تھے ۔

الف :  خیالی اور عبدالحکیم

”تاریخ فلسفہ در جہان اسلامی“ Ú©Û’ مولفین Ù†Û’ اس متعلق کہا ہے:  اشاعرہ Ú©Û’ آسانی سے حاصل شدہ عقاید بہت جلد تبدیل ہوگئے ØŒ یعنی اشاعرہ Ù†Û’ عقل Ú©ÛŒ طرف رجحان کرلیا ØŒ یہاں تک کہ وہ اس Ú©Ùˆ نص پر ترجیح دینے Ù„Ú¯Û’ØŒ اور جیسا کہ خیالی اور عبدالحکیم Ù†Û’ اپنی کتاب ”عقاید نسفی“ Ú©Û’ حواشی پر کہا ہے: جن جگہوں پر نص ایسی چیز Ú©ÛŒ حکایت کرتی ہو جس Ú©Ùˆ عقل منع کرتی ہو تو اس نص Ú©ÛŒ تاویل کرنا چاہئے کیونکہ عقل ØŒ نقل پر مقدم ہے ØŒ عقل اصل ہے اور نقل فرع ہے کیونکہ نقل ØŒ اثبات صانع ،اثبات عالمیت اور قدرت پر متوقف ہے Û” لہذا نقل Ú©Û’ ذریعہ عقل Ú©Ùˆ باطل کرنا ایسا ہے جیسے اصل Ú©Ùˆ فرع Ú©Û’ ذریعہ باطل کردیا ہو اور یہ عقل Ùˆ نقل دونوں Ú©Ùˆ باطل کرنا ہے Û”

ب :  شیخ محمد عبدہ

متاخرین اشاعرہ میں عقل پر عمل کرنے والے بہت زیادہ ظاہر ہوئے منجملہ شیخ محمد عبدہ (متوفی ۱۳۲۳) بھی ہیں وہ اشاعرہ مذہب کی پیروی کرتے تھے لیکن اشاعرہ اور معتزلہ کے درمیان اختلافی مسائل میں وہ ایسے نظریات کو بیان کرتے تھے جن میں اشاعرہ کی مخالفت عیاں ہوتی تھی۔

بہتر ہے یہاںپر ان کے نظریہ حسن و قبح عقلی (اشاعرہ اور معتزلہ کے درمیان سب سے ہم مسئلہ) کو بیان کیا جائے :

انہوں نے اس آیت ” یامرھم بالمعروف و ینھاھم عن المنکر“ کے تفسیر میں کہا ہے : مشہور یہ ہے کہ عقل سالم اس کو صحیح سمجھتی ہیں اور پاک و پاکیزہ دل ،فطرت و مصلحت سے ہماہنگ ہونے کی وجہ سے اس کوپسند کرتے ہیں اور اس بات کے منکر ہیں کہ عقل سالم اس کا انکار کرتی ہے اور پاک و پاکیزہ دل اس سے متنفر ہیں لیکن ”معروف “ کی تفسیر جس کا شریعت نے حکم دیا ہے اور ”منکر“ کی تعریف جس سے شریعت نے منع کیا ہے اس کی تفسیر واضح ہے ۔اور ہماری اس بات کے معنی حسن و قبلح عقلی کے سلسلہ میں معتزلہ کی طرفداری اور اشاعرہ کی مخالفت نہیں ہے ، ہم ان دونوں نظریوں میں سے ایک حصہ کے موافق اور ایک کے مخالف ہیں ،اس بنیاد پر عقل کی قدرت کو حسن افعال کو درک کرنے میں کلی طور پر انکار نہیں کرتے (جس طرح اشاعرہ منکر ہیں)لیکن کسی چیز کو خداوند عالم کے اوپر واجب بھی نہیں جانتے (جیسا کہ معتزلہ کا عقیدہ ہے) ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 next