مذہب اشعری اور معتزلہ میں تبدیلیاں

سید حسین حیدر زیدی


اس طریقہ کو طریقہ تفویض (تاویل کے مقابلہ میں) سے بھی یاد کیا جاتا ہے ، جیسا کہ شیخ محمد عبدہ نے متقدمین اور متاخرین کے طریقہ کو بیان کیا ہے جس میں کتاب و سنت کی وہ نصوص جو اصل تنزیہ سے منافات رکھتی ہیں، بیان کرتے ہوئے کہا ہے:

سلف ، اصل تنزیہ سے تفویض کی بنیاد پر دفاع کرتے تھے اور خلف اصل تنزیہ کو تاویل کی بنیاد پر محفوظ کرتے تھے ۔

ج :  حدوث Ùˆ قدم کلام الہی

اہل حدیث اور حنابلہ ، کلام الہی (قرآن کریم) کے قدیم ہونے پر اصرار کرتے ہیں اور اس کے حادیث ہونے کے اعتقاد کو کفر کا باعث سمجھتے ہیں جیسا کہ احمد بن حنبل نے کہا ہے:

قرآن کریم کلام الہی ہے اور مخلوق نہیں ہے جو بھی قرآن کریم کے مخلوق ہونے کا معتقد ہو وہ کافر ہے اور جو اس مسئلہ میں توقف کرے اور قرآن کو نہ حادث مانے اور نہ قدیم، اس کی فکر حادث ہونے کے قائلین سے بھی زیادہ خراب ہے ۔

ان کے مقابلہ میں معتزلہ قرآن کریم کے حادث ہونے پر اصرار کرتے ہیں اور ان کے اس شدید اصرار سے بہت تلخ حوادث رونما ہوئے جو ”محنہ“ کے دور سے مشہور ہے ۔

ابوالحسن اشعری نے اس کلامی اختلاف میں اہل حدیث کے عقیدہ کا دفاع کیا ہے لیکن کلام الہی کے لئے دو چیزوں کے قائل ہوگئے : ایک کلام نفسی اور دوسرے کلام لفظی، اور کہا کہ جو کچھ قدیم ہے وہ کلام نفسی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ وہ ابراز و اظہار کا وسیلہ ہے ۔

شہرستانی نے اشعری کے نظریہ کو کلام الہی کے سلسلہ میں اس طرح بیان کیا ہے:

انبیاء کے اوپر فرشتوں کے ذریعہ سے جو الفاظ اور عبارتیں وحی ہوتی ہیں وہ کلام کے ازلی ہونے پر دلیلیں اور نشانیاں ہیں اور دلیل و نشانی ، مخلوق اور حادث ہے ، لیکن مدلول ، قدیم اور ازلی ہے، قرائت اور مقروء ، تلاوت اور متلو کے درمیان فرق ذکر اور مذکور کی طرح ہے کہ ذکر حادث لیکن مذکور قدیم ہے ۔ اشعری نے اپنی اس دقت و نظر کو اعمال کرکے حشویہ کی مخالفت کی ہے کیونکہ وہ حروف اور کلمات کو قدیم جانتے ہیں ،لیکن کلام کی حقیقت اشعری کی نظر میں قائم بالنفس کے معنی میں ہے ۔ جو کہ عبارت اور الفاظ کے علاوہ کچھ اور ہے اور عبارت و لفظ اس پر دلیل ہیں، اس بناء پر اشعری کی نظر میں متکلم وہ ہے جس میں صفت کلام، اس کی ذات سے قائم ہو اورمعتزلہ کی نظر میں متکلم وہ ہے جو کلام کو ایجاد کرے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 next