مذہب اشعری اور معتزلہ میں تبدیلیاں

سید حسین حیدر زیدی


خداوند عالم علم، قدرت،حیات ، ارادہ وغیرہ جیسے صفات سے متصف ہے ،متکلمین میں سے کسی کو بھی اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ مذکورہ صفات ، صفات کمال ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں بھی ذکر ہوئے ہیں لیکن اصل بحث خدا وند عالم کے لئے ان صفات کے محقق ہونے کی کیفیت میں ہے کہ کیا ان کی واقعیت عین ذات الہی ہے یا اس کی ذات پر زاید ہیں؟

اکثر معتزلہ ،خداوند عالم کے ازلی صفات کو اس کی عین ذات سمجھتے ہیں اور بعض اہل حدیث (مشبہ) ان صفات کو اس کی ذات سے زائد اور مغایر سمجھتے ہیں اور شیخ اشعری نے بھی نظریہ زائد بر ذات کو انتخاب کیا لیکن اس میں ایک تبصرہ کا اضافہ کیا ، وہ تبصرہ یہ ہے : یہ ازلی صفات نہ عین ذات ہیں اور نہ غیر ذات، اگر چہ اپنی حقیقت میں قائم بالذات ہیں، جیسا کہ شہرستانی نے کہا ہے:

قال ابوالحسن : الباری تعالی عالم بعلم، قادر بقدرة، حی بحیاة، مرید بارادة، ․․․ قال : و ھذہ الصفات ازلیة قائمة بذاتہ تعالی ، لایقال : ھی ہو، ولا ھی غیرہ، لا ھو، ولا ، لاغیرہ۔

ابوالحسن اشعری نے کہا ہے: خداوند عالم علم زائد کے ذریعہ عالم، قدرت کے ذریعہ قادر، حیات کے ذریعہ حی اور ارادہ کے ذریعہ مرید ہے ،خداوند عالم کے یہ ازلی اور قائم بالذات صفات نہیں کہے جاتے جو عین ذات ہیں اور نہ غیر ذات ہیں ۔

مذکورہ تبصرہ کے متعلق دو نکتوں کو بیان کرتے ہیں:

Û±Û”  یہ مطلب شیخ اشعری Ú©ÛŒ فکر Ú©ÛŒ ایجاد نہیں ہے کیونکہ ان سے پہلے عبداللہ بن کلاب(متوفی Û²Û´Û°) Ù†Û’ بیان کیا ہے Û” اشعری Ù†Û’ ”مقالات الاسلامین“ میں ان Ú©Û’ نظریہ Ú©Ùˆ اس طرح بیان کیا ہے : ” خداوند عالم Ú©Û’ نام اور صفات اس Ú©ÛŒ ذات میں موجود ہیں، نہ وہ خود ہیں اور نہ ان Ú©Û’ علاوہ Ú©Ú†Ú¾ اورہے ØŒ یہ ذات حق Ú©Û’ ساتھ ثابت ہیں، لیکن صفتوں Ú©Ùˆ ایک دوسرے Ú©Û’ ساتھ ثابت ہونا جائزنہیں ہے ØŒ اشعری Ú©Û’ نقل Ú©Û’ مطابق سلیمان بن جریر زیدی Ù†Û’ بھی خداوند عالم Ú©Û’ صفات Ú©Û’ متعلق یہ بات کہی ہے Û”

Û²Û”  اشعری کا اس بات سے ہدف یہ ہے کہ لزوم تعدد قدماکے مشہور اعتراض Ú©Û’ ذریعہ ان لوگوں کا جواب دیں جو صفات Ú©Û’ زائد ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں،  کیونکہ مذکورہ اعتراض اس بات پر مبتنی ہے کہ ذات ØŒ صفات سے جدا ہے جیسا کہ ابن خلدون Ù†Û’ معتزلہ Ú©ÛŒ طرف سے ذات پر صفات Ú©Û’ زاید ہونے Ú©Û’ نظریہ Ú©Ùˆ تعدد قدما Ú©Û’ اعتراض Ú©ÛŒ طرف اشارہ کرنے Ú©Û’ بعد کہا ہے :

” وھو مردود بان الصفات لیست عین الذات و لا غیرھا“ مذکورہ اعتراض وارد نہیں ہے کیونکہ صفات نہ عین ذات ہیں اور نہ غیر ذات ۔

اسی لئے اشعری نے صفات کے منکرین و قائلین کے درمیان درمیانی راستہ کا انتخاب کیا ، تاکہ تعدد قدما کا اعتراض واردنہ ہوسکے ۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بات مذکورہ اعتراض کیلئے صحیح جواب نہیں ہے ، کیونکہ اگر صفات ازلی کی کوئی حقیقت ہو اور وہ حقیقت ذات کی عین حقیقت نہ ہو تو یہ سوال پیش کیا جاتا ہے کہ کیا وہ اپنے وجود میں ذات سے بے نیاز ہیں یا اس کے محتا ج ہیں؟ پہلی صورت میں تعدد قدما لازم آتے ہیں، اور دوسری صورت میں کس طرح ممکن ہے کہ جس ذات میں صفات نہ ہوں وہ ان کو ایجاد کرے؟



back 1 2 3 4 5 6 7 next