اہل حدیث



اس حصہ میں کوشش کریں گے کہ اشعری کی روش کے نتیجہ کو ان کے بعض عقاید میں ظاہر کریں ۔ اس وجہ سے اس کے عقیدہ کے اصحاب حدیث اور معتزلہ کے عقاید کو اجمال کے ساتھ مقایسہ کریں گے ۔

Ù¡Û”  صفات خبری :  علم کلام میں کبھی کبھی صفات الہی Ú©Ùˆ صفات ذاتیہ اور صفات خبریہ میں تقسیم کرتے ہیں Û” صفات ذاتیہ سے مراد وہ صفات ہیں جو آیات Ùˆ روایات میں بیان ہوئے ہیں اور عقل خود بخود ان صفات Ú©Ùˆ خداوند عالم Ú©Û’ لئے ثابت کرتی ہے جیسے خدا Ú©Û’ لئے ہاتھ، پیر اور چہرہ کا ہونا ،اس طرح Ú©Û’ صفات Ú©Û’ متعلق متکلمین Ú©Û’ درمیان اختلاف ہے Û”

اہل حدیث کا ایک گروہ جس کو مشبھہ حشویہ کہتے ہیں، یہ صفات خبریہ کو تشبیہ کے ساتھ خداوندعالم کے لئے ثابت کرتے ہیں ۔ یہ لوگ معتقد ہیں کہ خداوند عالم میں صفات خبریہ اسی طرح پائے جاتے ہیں جس طرح مخلوقات میں پائے جاتے ہیں اوراس جہت سے خالق اور مخلوق کے درمیان بہت زیادہ شباہت پائی جاتی ہے ۔ شہرستانی نے اس گروہ کے بعض افراد سے نقل کیا ہے کہ ان کاعقیدہ ہے یہ ہے کہ خداوندعالم کو لمس کیا جاسکتا ہے اور اس سے مصافحہ اور معانقہ کیا جاسکتا ہے ۔

اہل حدیث میں سے بعض لوگ صفات خبریہ کے متعلق تفویض کے معتقد ہیں ۔ یہ لوگ صفات خبریہ کو خداوند عالم سے منسوب کرنے کے ضمن میں ان الفاظ کے مفہوم و مفاد کے سلسلہ میں ہر طرح کا اظہار نظر کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اوراس کے معنی کو خداوند عالم پر چھوڑدیتے ہیں ۔ مالک بن انس کا خداوند عالم کے استوی پر ہونے کی کیفیت کے متعلق سوال کے جواب سے ان کا نظریہ معلوم ہوجاتا ہے ۔ لیکن معتزلہ ، خداوند عالم کو مخلوقات سے مشابہ ہونے سے منزہ سمجھتے ہیں اور خداوند عالم کے ہاتھ اور پیر رکھنے والے صفات کو جائز نہیں سمجھتے ہیں ۔ دوسری طرف قرآن اور روایات میں اس طرح کے صفات کی خداوند عالم سے نسبت دی گئی ہے ۔ معتزلہ نے اس مشکل کوحل کرنے کے لئے صفات خبریہ کی توجیہ اور تاویل کرنا شروع کردی اور یداللہ (خدا کے ہاتھ) کی ''قدرت الہی'' سے تفسیر کرنے لگے ۔

اشعری نے صفات خبریہ کے اثبات میں ایک طرف تو اصحاب حدیث کے نظریہ کو قبول کرلیا اور دوسری طرف ''بلا تشبیہ'' اور بلاتکلیف'' کی قید کو اس میں اضافہ کردیا ۔ وہ کہتے ہیں : ''یقینا خداوند عالم کے دو ہاتھ ہیں، لیکن خدا کے ہاتھ کی کوئی کیفیت نہیں ہے جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے : (بل یداہ مبسوطتان) ، (سورہ مائدہ، آیت ٦٤) ۔

اسی طرح خداوند عالم کے آنکھیں بھی ہیں لیکن ان کی کیفیت بھی معلوم نہیں ہے جیسا کہ فرماتا ہے '' تجری باعیننا ) (سورہ قمر، آیت ١٤) ۔

Ù¢Û”  جبر واختیار:  اہل حدیث Ù†Û’ قضا Ùˆ قدر الہی پر اعتقاد رکھنے اور عملی طور پر اس اعتقاد Ú©Ùˆ انسان Ú©Û’ اختیار Ú©Û’ ساتھ جمع کرنے Ú©ÛŒ طاقت نہ رکھنے Ú©ÛŒ وجہ سے وہ انسان Ú©Û’ لئے اس Ú©Û’ افعال میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکے ØŒ اس وجہ سے وہ نظریہ جبر میں گرفتار ہوگئے Û” یہ بات ابن حنبل Ú©Û’ اعتقاد نامہ میں ذکر شدہ اعتقاد سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے ØŒ جب کہ معتزلہ انسان Ú©Û’ اختیاری افعال میں اس Ú©ÛŒ مطلق آزادی Ú©Û’ قائل ہیں اور قضا Ùˆ قدر اور خداوند عالم Ú©Û’ ارادہ Ú©Û’ لئے اس طرح Ú©Û’ افعال میں کسی نظریہ Ú©Û’ قائل نہیں ہیں Û”

اشعری کا نظریہ یہ تھا کہ نہ صرف قضا و قدر الہی عام ہے بلکہ انسان کے اختیاری افعال کو بھی خداوند عالم ایجاد اور خلق کرتا ہے دوسری طرف اس نے کوشش کی کہ انسان کے اختیاری افعال کے لئے کوئی کردار پیش کرے ،انہوں نے اس کردار کو نظریہ کسب کے قالب میں بیان کیا ۔ اشعری کا یہ نظریہ بہت ہی اہم اور پیچیدہ ہے اس لئے ہم اس کو یہاں پر تفصیل سے بیان کرتے ہیں :

''کسب'' ایک قرآنی لفظ ہے اور متعدد آیات میں اس لفظ اور اس کے مشتقات کو انسان کی طرف نسبت دیا گیا ہے ۔ بعض متکلمین منجملہ اشعری نے اپنے نظریات کو بیان کرنے کے لئے اس کلمہ سے فائدہ اٹھایا ہے انہوں نے کسب کے خاص معنی بیان کرنے کے ضمن میں اس کو اپنے نظریہ جبر و اختیار اور انسان کے اختیاری افعال کی توصیف پر ملاک قرار دیا ہے ، اگر چہ اشعری سے پہلے دوسرے متکلمین نے بھی اس متعلق بہت کچھ بیان کیا ہے ۔ لیکن اشعری کے بعد ، کسب کا لفظ ان کے نام سے اس طرح متمسک ہوگیا ہے کہ جب بھی کسب یا نظریہ کسب کی طرف اشارہ ہوتا ہے تو بے اختیار اشعری کانام زبان پر آجاتا ہے ۔

ان کے بعد اشعری مسلک کے متکلمین نے اشعری کے بیان کردہ نظریہ سے اختلاف کے ساتھاپنی خاص تفسیر کو بیان کیا ۔ یہاں پر ہم نظریہ کسب کو اشعری کی تفسیر کے ساتھ بیان کریں گے ۔ ان کے نظریہ کے اصول مندرجہ ذیل ہیں:



back 1 2 3 4 5 6 next