اہل حدیث



انہوں نے اس موضوع میں اس قدر مبالغہ سے کام لیا ہے کہ بعض لوگوں نے اس کی جلد اور قرآن کے کاغذ کو بھی قدیم سمجھ لیا ۔

معتزلہ بھی کلام خدا کو اصوات اور حروف سمجھتے ہیں لیکن ان کو قائم بذات خدا نہیں سمجھتے اور ان کا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم اپنے کلام کو لوح محفوظ یا جبرئیل، یا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں خلق کرتا ہے اور اس وجہ سے خدا کا کلام حادث ہے ۔

اشعری Ù†Û’ میانہ راستہ اختیار کرنے Ú©Û’ لئے کلام Ú©Ùˆ دو قسموں میں تقسیم کیا ہے :  پہلی قسم وہی لفظی کلام ہے جو حروف اور اصوات میں تشکیل پاتا ہے ،اس متعلق انہوں Ù†Û’ معتزلہ Ú©ÛŒ بات Ú©Ùˆ قبول کرتے ہوئے کلام لفظی Ú©Ùˆ حادث شمار کیا ہے ØŒ لیکن دوسری قسم کلام نفسی ہے اس قسم میں اہل حدیث Ú©ÛŒ طرح کلام خدا Ú©Ùˆ قائم بذات اور قدیم شمار کیا ہے Û” حقیقی کلام وہی کلام نفسی ہے جو قائم بنفس ہے اور الفاظ Ú©Û’ ذریعہ بیان ہوتا ہے ØŒ کلام نفسی واحد اور نامعتبر ہے Û” جب کہ کلام لفظی تغییر Ùˆ تبدیل Ú©Û’ قابل ہے ØŒ کلام نفسی Ú©Ùˆ مختلف عبارات Ú©Û’ ساتھ بیان کیا جاسکتا ہے Û”

Ù¤Û”  رئویت خدا :  اہل حدیث کا ایک گروہ جو مشبھہ حشویہ Ú©Û’ نام سے مشہور ہے ان کا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم Ú©Ùˆ آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے، لیکن معتزلہ ہر طرح Ú©ÛŒ رئویت خدا سے انکار کرتے ہیں Û” اشعری Ù†Û’ اس متعلق درمیانہ راستہ اختیار کیا تاکہ افراط Ùˆ تفریط سے محفوظ رہے Û” ان کا عقیدہ ہے کہ خدا وندعالم دیکھا ئی دیتا ہے لیکن خدا Ú©Ùˆ دوسرے اجسام Ú©ÛŒ طرح نہیں دیکھا جاسکتا ہے Û” ان Ú©ÛŒ نظر میں رئویت خدا ØŒ مخلوقات سے مشابہ نہیں ہے Û” اس متعلق ایک شارح Ù†Û’ لکھا ہے : '' اشاعرہ کا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم Ú©Û’ جسم نہیں ہے اور وہ کسی سمت میںنہیں ہے اس بناء پر اس Ú©Û’ چہرہ اور حدقہ وغیرہ نہیں ہے لیکن اس Ú©Û’ باجود وہ چودہویں رات Ú©Û’ چاند Ú©ÛŒ طرح اپنے بندوں پر ظاہر ہوسکتا ہے اور دکھائی دے سکتا ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہوا ہے '' Û” اپنی بات Ú©Ùˆ Ø¢Ú¯Û’ بڑھاتے ہوئے تاکید کرتے ہیں کہ '' ہماری دلیل عقل بھی ہے او رنقل بھی ہے لیکن اس مسئلہ میں اصل نقل ہے''Û”

اشاعرہ کی دلیل عقلی جو دلیل الوجود کے نام سے مشہور ہے یہ ہے کہ جو چیز بھی موجود ہے وہ دکھائی دے گی مگر یہ کہ کوئی مانع موجود ہو ، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ کسی وجود کا ہونا اس کے رئویت کا تقاضاکرتا ہے اس بناء پر چونکہ خداوند عالم موجود ہے اور اس کے دکھائی دینے کا لازمہ امر محال نہیں ہے پس رئویت خدا ، عقلا ممکن ہے ۔

Ù¥Û”  حسن Ùˆ قبح افعال : معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ افعال میں حسن Ùˆ قبح ذاتی پایا جاتا ہے اور عقل بھی( Ú©Ù… سے Ú©Ù… بعض موارد میں)اس Ú©Û’ حسن وقبح Ú©Ùˆ جاننے پر قادر ہے ØŒ بلکہ اصولی طور پر تو یہ افعال Ú©Û’ حسن Ùˆ قبح واقعی سے انکار کرتے ہیں Û” کتاب شرح مواقف Ú©Û’ مصنف اس متعلق لکھتے ہیں : '' ہمارے ( یعنی اشاعرہ Ú©Û’)نزدیک قبیح یہ ہے کہ نہی تحریمی یا تنزیہی واقع ہو اور حسن یہ ہے کہ اس سے نہی نہ ہوئی ہو ،جیسے واجب ØŒ مستحب اور مباح Û” اور خداوندعالم Ú©Û’ افعال حسن ہیں '' اسی طرح نزاع Ú©ÛŒ توضیح او ربیان Ú©Û’ وقت حسن Ùˆ قبح Ú©Û’ تین معنی کرتے ہیں :

Ù¡Û”  کمال Ùˆ نقض  :  جس وقت کہا جاتا ہے : '' علم ØŒ حسن ہے'' اور'' جہل، قبیح ہے'' تو حسن Ùˆ قبح Ú©Û’ یہی معنی مراد ہوتے ہیں ØŒ اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حسن Ùˆ قبح Ú©Û’ یہ معنی صفات فی نفسہ میںثابت ہیں اور عقل اس Ú©Ùˆ درک کرتی ہے اور شرع سے اس کا کوئی ارتباط نہیں ہے Û”

Ù¢Û”  غرض سے ملایم Ùˆ منافر ہونا :  اس معنی میں جو بھی غرض اور مراد سے موافق ہے وہ حسن ہے اور جو بھی مخالف ہو وہ قبیح ہے اور جو ایسا نہ ہو وہ نہ حسن ہے اور نہ قبیح ہے Û” ان دو معنوں Ú©Ùˆ کبھی ''مصلحت '' اور کبھی ''مفسدہ '' سے تعبیر کرتے ہیں Û” اس معنی میں بھی حسن Ùˆ قبح عقلی امر ہیں اور اغراض Ùˆ اعتبارات Ú©ÛŒ وجہ سے بدل جاتے ہیں ØŒ مثلا کسی کا قتل ہوجانا اس Ú©Û’ دشمنوں Ú©Û’ لئے مصلحت ہے اور ان Ú©Û’ ہدف Ú©Û’ موافق ہے لیکن اس Ú©Û’ دوستوں Ú©Û’ لحاظ سے مفسدہ ہے اس بناء پر اس معنی میں حسن Ùˆ قبح Ú©Û’ معنی اضافی اور نسبی ہیں ØŒ حقیقی نہیں ہیں Û”

Ù£Û”  استحقاق مدح :  متکلمین Ú©Û’ درمیان جس معنی میں اختلاف ہوا ہے وہ یہی تیسرے معنی ہیں ØŒ اشاعرہ حسن Ùˆ قبح Ú©Ùˆ شرعی سمجھتے ہیں ØŒ کیونکہ اس لحاظ سے تمام افعال مادی ہیں اور کوئی بھی فعل خود بخود مدح Ùˆ ذم یا ثواب Ùˆ عقاب کا اقتضاء نہیں کرتا ہے اور صرف شارع Ú©ÛŒ امر Ùˆ نہی Ú©ÛŒ وجہ سے ایسی خصوصیت پیدا ہوجاتی ہے ØŒ لیکن معتزلہ Ú©Û’ نظریات Ú©Û’ مطابق یہ معنی بھی عقلی ہیں ØŒ کیونکہ فعل خود بخود ØŒ شرع سے چشم پوشی کرتے ہوئے یا حسن ہیں جس Ú©ÛŒ وجہ سے اس فعل کا فاعل مدح اور ثواب کا مستحق ہے ØŒ یا قبیح ہے جس Ú©ÛŒ وجہ سے اس فعل کا فاعل عقاب اور برائی کامستحق ہے Û”

Ù¦Û”  تکلیف ما لا یطاق :  تکلیف ما لا یطاق Ú©Û’ معنی یہ ہیں کہ خداوند عالم اپنے بندہ Ú©Ùˆ ایسے فعل Ú©ÛŒ تکلیف دے جس Ú©Ùˆ انجام دینے پر وہ قادر نہیں ہے Û” سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان Ú©Ùˆ ایسی تکلیف دینا جائز ہے؟ اور اس Ú©Û’ ترک کرنے پر عقاب کرنا جائز ہے؟ یہ بات واضح ہے کہ اس مسئلہ میں فیصلہ کرنے Ú©Û’ لئے مسئلہ حسن Ùˆ قبح Ú©ÛŒ طرف مراجعہ کرنا Ù¾Ú‘Û’ گا ØŒ معتزلہ چونکہ حسن وقبح Ú©Ùˆ عقلی سمجھتے ہیں لہذا وہ اس طرح Ú©ÛŒ تکلیف Ú©Ùˆ قبیح اور محال سمجھتے ہیں اور خداوند عالم Ú©ÛŒ طرف سے ایسی تکلیف Ú©Û’ صادر ہونے Ú©Ùˆ جائز نہیں سمجھتے ہیں Û” لیکن اشاعرہ چونکہ حسن وقبح Ú©Û’ عقلی ہونے پر اعتقاد نہیں رکھتے اور کسی چیز Ú©Ùˆ خداپرواجب نہیں سمجھتے ہیں اس لئے ان کا نظریہ ہے کہ خداوند عالم ہر کام منجملہ تکلیف ما لا یطاق Ú©Ùˆ بھی انجام دے سکتا ہے اور اس Ú©ÛŒ طرف سے جو عمل بھی صادر ہو وہ عمل نیک ہے Û”

مذہب اشعری کا استمرار

ابوالحسن اشعری کے مذہب کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ شروع میں علمائے اہل سنت نے ان کے نظریات کو قبول نہیں کیا اور ہر جگہ ان کی بہت زیادہ مخالفت ہوئی ، لیکن عملی طورپر ان مخالفتوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور مذہب اشعری آہستہ آہستہ اہل سنت کی فکروں پر غالب آتا گیا ، ابوالحسن اشعری کے بعد سب سے پہلی شخصیت جس نے اس مذہب کو آگے بڑھا یا وہ ابوبکر باقلانی (متوفی ٤٠٣ ھ) ہے ، انہوں نے ابوالحسن اشعری کے نظریات کو جو کہ دو کتابوں ''الابانہ و اللمع'' میں اجمالی طور سے موجود تھے، ان کی اچھی طرح شرح کی اور ان کو ایک کلامی نظام کی شکل میں پیش کیا ۔

لیکن اشعری مذہب کو سب سے زیادہ امام الحرمین جوینی (متوفی ٤٧٨ھ) نے وسعت بخشی ۔ خواجہ نظام الملک نے بغداد کا مدرسہ نظامیہ تاسیس کرنے کے بعد (٤٥٩ھ)میں جوینی کو تدریس کے لئے وہاں بلایا ۔ جوینی نے تقریبا تیس سال تک اشعری مذہب کی ترویج کی اور چونکہ یہ شیخ الاسلام اور مکہ و مدینہ کے امام تھے اس لئے ان کے نظریات کو پورے عالم اسلام میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ۔ جوینی کے آثار کے ذریعہ اشعری مذہب بہت زیادہ پھیلا، یہاں تک کہ اہل سنت معاشرہ میں ان کے کلام کو ترجیح دی جانے لگی۔

جوینی نے اشعری کے نظریات کو عقلی اوراستدلالی رنگ دیا اور امام فخر رازی (متوفی ٦٠٦ھ) نے اشعری مذہب کو عملی طور پر فلسفی رنگ دیا ۔ امام فخر رازی نے اشعری کے مذہب سے دفاع اور ان کے مذہب کو ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ ابن سینا کے فلسفی نظریات پر انتقاد کیا ۔ دوسری طرف امام محمد غزالی (متوفی ٥٠٥ھ) جو کہ جوینی کے شاگرد تھے، نے تصوف کو اختیار کرلیا اور اشعری کے نظریات کی عرفانی تفسیر پیش کی ۔ انہوں نے ایک اہم کتاب احیاء العلوم لکھ کر تصوف اور اہل سنت کے درمیان ایک ارتباط برقرار کردیا ۔



back 1 2 3 4 5 6