اہل حدیث



Ù¡Û”  قدرت Ú©ÛŒ دو قسمیں ہیں:  '' ایک قدرت قدیم'' جو خداوند عالم سے مخصوص ہے اور فعل Ú©Û’ خلق Ùˆ ایجاد کرنے میں موثر ہے Û” اور دوسری قسم ''قدرت حادث'' ہے جو فعل Ú©Ùˆ ایجاد کرنے میں موثر نہیں ہے اور اس کافائدہ یہ ہے کہ صاحب قدرت اپنے اندر آزادی اور اختیار کا احساس کرتا ہے اورگمان کرتا ہے کہ وہ کسی کام Ú©Ùˆ انجام دینے Ú©ÛŒ قدرت رکھتا ہے Û”

Ù¢Û”  انسان کا فعل ØŒ خدا Ú©ÛŒ مخلوق ہے :   اشعری Ú©Û’ لئے یہ ایک قائدہ Ú©Ù„ÛŒ ہے کہ خدا Ú©Û’ علاوہ کوئی خالق نہیں ہے اور تمام چیز منجملہ انسان Ú©Û’ تمام افعال ØŒ خدا Ú©ÛŒ مخلوق ہیں Û” وہ تصریح کرتے ہیں کہ افعال کا حقیقی فاعل ØŒ خدا ہے Û” کیونکہ خلقت میں صرف قدرت قدیم موثر ہے اور یہ قدرت صرف خدا Ú©Û’ لئے منحصر ہے Û”

Ù£Û”  انسان کا کردار، فعل Ú©Ùˆ کسب کرنا ہے Û” خداوند عالم ØŒ انسان Ú©Û’ افعال کوخلق کرتا ہے اور انسان ØŒ خداوند عالم Ú©Û’ خلق کردہ افعال Ú©Ùˆ حاصل کرتا ہے Û”

Ù¤Û”  کسب یعنی خلق فعل کا انسان میں قدرت حادث Ú©Û’ خلق ہونے Ú©Û’ ساتھ مقارن ہونا Û” اشعری خود لکھتے ہیں : '' میرے نزدیک حقیقت یہ ہے کہ اکتساب اور کسب کرنے Ú©Û’ معنی فعل کا قوت حادث Ú©Û’ ساتھ اور ہمزمان واقع ہونا ہے Û” لہذا فعل Ú©Ùˆ کسب کرنے والا وہ ہے جس میںفعل قدرت (حادث) Ú©Û’ ساتھ ایجاد ہوا ہو Û” مثال Ú©Û’ طور پر جب ہم کہتے ہیں کہ کوئی آدمی راستہ Ú†Ù„ رہا ہے یا وہ راستہ چلنے Ú©Ùˆ کسب کررہا ہے ØŒ یعنی خداوند عالم اس شخص میں راستہ چلنے Ú©Ùˆ ایجاد کرنے Ú©Û’ ساتھ ساتھ اس Ú©Û’ اندر قدرت حادث بھی ایجاد کررہا ہے جس Ú©Û’ ذریعہ انسان یہ احساس کرے کہ وہ اپنے فعل Ú©Ùˆ اپنے اختیار سے انجام دے رہا ہے Û”

Ù¥Û”  اس نظریہ میںفعل اختیاری اورغیراختیاری میں فرق یہ ہے کہ فعل اختیاری میں چونکہ فعل انجام دیتے وقت انسان میں قدرت حادث ہوتی ہے تو وہ آزادی کا احساس کرتا ہے لیکن غیر اختیاری فعل میں چونکہ اس میںایسی قدرت نہیں ہے وہ جبر اور ضرورت کا احساس کرتا ہے Û”

Ù¦Û”  اگر چہ انسان فعل Ú©Ùˆ کسب کرتا ہے لیکن یہی کسب خدا Ú©ÛŒ مخلوق بھی ہے Û” اس بات Ú©ÛŒ دلیل اشعری Ú©Û’ نظریہ سے بالکل واضح ہے Û” کیونکہ اولا : گذشتہ قاعدہ Ú©Û’ مطابق ہر چیز منجملہ کسب ØŒ خدا Ú©ÛŒ ایجاد کردہ ہے Û” ثانیا :  کسب Ú©Û’ معنی انسان میں حادث قدرت اور فعل Ú©Û’ مقارن ہونے Ú©Û’ ہیں، اور چونکہ فعل اور قدرت حادث Ú©Ùˆ خداوند عالم خلق کرتا ہے ØŒ لہذا ان دونوں Ú©ÛŒ مقارنت بھی اسی Ú©ÛŒ خلق کردہ ہوگی Û” اشعری Ù†Û’ اس مطلب Ú©ÛŒ تصریح کرتے ہوئے قرآن کریم Ú©ÛŒ آیات سے تمسک کیا ہے وہ کہتے ہیں : '' اگر کوئی سوال کرے کہ تم یہ کیوں سوچتے ہو کہ بندوں Ú©Û’ کسب ØŒ خداکی مخلوق ہے تو ہم اس سے کہیں Ú¯Û’ کہ کیونکہ قرآن Ù†Û’ فرمایا ہے : ( خداوند عالم Ù†Û’ تمہیں اور جو Ú©Ú†Ú¾ تم عمل کرتے ہو، خلق کیا ہے ) (سورہ صافات، آیت ٩٦) Û”

Ù§Û”  یہاں پر جو سوال بیان ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسب ،خدا Ú©ÛŒ مخلوق ہے تو پھر اس Ú©Ùˆ انسان Ú©ÛŒ طرف کیوں نسبت دیتے ہیںاور کہتے ہیں کہ انسان کاعمل ہے Û”

اس کے جواب میں اشعری معتقد ہیں کہ مکتسب اور کاسب ہونے کا ملاک ، کسب کرنے کی جگہ ہے نہ کہ کسب کو ایجاد کرنا ۔ مثال کے طور پر جس چیز میں حرکت نے حلول کیا ہے اس کو متحرک کہتے ہیں ، جس نے حرکت کو ایجاد کیا ہے اس کو متحرک نہیں کہتے ۔یہاں پر بھی انسان ،محل کسب ہے اس لئے اس کو مکتسب کہتے ہیں ۔

نتیجہ یہ ہوا کہ خداوند عالم کی سنت اس بات پر برقرار ہے کہ جب انسان سے اختیاری فعل صادرہوتا ہے تو خداوند عالم اسی وقت قدرت حادث کو بھی انسان میں خلق کردیتا ہے اورانسان صرف فعل اور قدرت حادث کی جگہ ہے یعنی فعل اور قدرت حادث کے مقارن ہونے کی جگہ ہے ۔ اس بناء پر اشعری کا نظریہ انسان کے اختیاری فعل سے جبر کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ اگر چہ انہوں نے بہت زیادہ کوشش کی ہے تاکہ وہ انسان کے لئے ہاتھ او رپیر کا کردار ادا کریں لیکن آخر کار وہ اسی راستہ کی طرف گامزن ہوگئے جس پر اکثر اہل حدیث اور جبر کے قائل افراد گامزن ہیں ۔

Ù£Û”  کلام خدا :  اہل حدیث معتقد ہیں کہ خداوندعالم کا کلام وہی اصوات اور حروف ہیں جو قائم بذات خدا اور قدیم ہیں Û”



back 1 2 3 4 5 6 next