علم اور دین کے مخصوص دائرے



اگر کوئی اسلام کو قبول کرنے کے بعد کھے، میں اسلامی احکام میں عمل کرنے سے آزاد ھوں اگر چاھوں عمل کروں اگر چاھوں عمل نہ کروں یہ اس حکومت کی طرح ھے کہ جو ڈیموکراسک اور آزاد ھے وہ لوگ اپنی مرضی سے اس حکومت کے انتخاب میں شرکت کرتے ھیں اور اپنے ووٹوں کے ذریعہ وزیر اعظم، رئیس جمھور اور ممبر آف پارلیمینٹ کو منتخب کرتے ھیں لیکن جب یھی حکومت کوئی قانون بناتی ھے تو اس پر عمل کرنے سے ……؟

اور جب یہ حکومت ٹیکس لگاتی ھے تو کیا کوئی کھہ سکتا ھے کہ میں نھیں دونگا اصل حکومت اور اس کے ووٹ دینے میں آزاد تھے لھٰذا اب بھی آزاد ھیں کہ اس کے قانون پر عمل کریں یا عمل نہ کریں ان باتوں کو کوئی بھی عقلمند قبول نھیں کرسکتا۔

جی ھاں: اسلام کو قبول کرنے میں کسی کو مجبور نھیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دلی اعتقاد کا نام ھے اور طاقت کے زور پر کسی نے اسلام قبول کرلیا تو اس وقت اس سے کھا جائےگا نماز پڑھو اور اگر کوئی کھے کہ میں نماز نھیں پڑھوں گا یا اگر اس سے کھا جائے کہ زکاة دو لیکن زکاة دینے سے انکار کرے، اےک تو کوئی بھی انسان اس کو قبول نھیں کرسکتا کیونکہ اگر کسی نے اسلام قبول کرلیا تو اس کے تمام احکام کو بھی قبول کرنا پڑے گا یہ نھیں ھوسکتا کہ اسلام تو قبول کرلے لیکن اس کے احکامات کو قبول نہ کرے، اور اپنی مرضی کے مطابق اعمال انجام دے کوئی بھی حکومت اس بات کو قبول نھیں کرسکتی کہ انسان اس کو ووٹ دے لیکن عملی میدان میں اس حکومت کے قوانین کو قبول نہ کرے، اجتماعی زندگی میں بنیادی ترین اصل وظائف اور تعھد و پیمان اور وعدہ پر وفا دار نہ ھو تو اجتماعی زندگی بالکل ھی وجود نھیں پاسکتی۔

لھٰذا اگر کوئی یہ کھے کہ میں اسلام کو قبول کرتا ھوں اور پیغمبر پر ایمان رکھتا ھوں لیکن اسلام مے احکامات پر عمل نھیں کرتا اور اس کی حاکمیت اور ولایت کو قبول نھیں کرتا تو ایسے اسلام کا کوئی فائدہ نھیں ھے، کیونکہ اسلام اور پیغمبر کو قبول کرنا اور اطاعت و پیروی نہ کرنے میں ظاھری تناقض پوشیدہ ھے۔

ھماری گفتگو سے یہ واضح و روشن ھوچکا ھے کہ اگر کوئی انصاف کی آنکہ سے آیات کو ملاحظہ کرے اور ان کی دلالت، لحن اور ما قبل و مابعد کو غور سے دیکھے تو قرآن کریم میں کوئی تناقض نھیں ملے گا اور مذکورہ شبہ کی اطاعت اور آزادی میں جو تناقض ھے وہ بالکل ختم ھوجائے گا جیسا کہ قرآن مجید نے بھی اسی کو صحیح کھا ھے )

لیکن جن کے دل مریض ھیں وہ قرآن کریم کو صداقت اور انصاف سے نھیں دیکھتے اگریہ لوگ قرآن کا مطالعہ کرتے تو اس وجہ سے کہ اپنی کج فکری اور منحرف نظریات کی دلائل تلاش کریں، اور اس وجہ سے کہ قرآن کی آیات کے بعض حصوں کو انتحاب کرتے ھیں اور سیاق و سباق (پھلی اور بعد والی آیتوں کو ) نھیں دیکھتے اور قرآن کے مطابق محکمات قرآن کو چھوڑدیتے ھیں اور متشابھات کی پیروی کرتے ھوئے نظر آتے ھیں:

(فَاٴَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا َتشَابَہ مِنْہ ابْتَغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتَغَاءَ تَاوِیْلِہ وَمَا یَعْلَمُ تَاٴوِیْلَہ إلاّٰ اللّٰہ وَالرَّاسِخُوْنَ فِیْ الْعِلْمِ )(13)

”پس جن لوگوں کے دل میں کجی ھے وہ انھیں آیتوں کے پیچھے پڑے رھتے ھیں جو متشابہ ھیں تاکہ فساد برپا کریں اور اس خیال سے کہ انھیں اپنے مطلب پر ڈھال لیں حالانکہ خدا او ران لوگوں کے سوا جو علم میں بڑے پایہ پر فائز ھیں ان کا اصلی مطلب کوئی نھیں جانتا“

متشابھات کی پیروی کے علاوہ آیات کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ھیں اور آیت کے ایکجملہ کو اخذ کرتے ھیں اور ماقبل و مابعد کو چھوڑ دیتے ھیں جس کے نتیجہ میں ان کو قرآن مجید میں تناقض نظر آتا ھے جیسا کہ مذکورہ شبہ میں ان لوگوں نے آیات کے ما قبل و ما بعد کو چھوڑ تے ھوے اعتراض کیا کہ پیغمبروں کی ولایت آزادی کے مخالف ھے ۔

وہ آیات کہ جن میں رسول اسلام کے تسلط کا انکار کیا گیا ھے وہ کفار کے اسلام قبول کرنے سے پھلے نازل ھوئی تھیں جن میں کھا گیا ھے کہ رسول ان کو طاقت کے زور ںپر اسلام قبول نہ کروائیں یعنی آنحضرت کفار پر تسلط نھیں رکھتے، در حقیقت ان آیات کے مطابق احکام الھی میں عمل کی آزادی اسلام لانے سے پھلے ھے ورنہ تو اسلام قبول کرنے والے ھر مسلمان کے لئے ضروری ھے کہ وہ پیغمبر اور دوسرے اسلامی احکام کی پیروی کریں اور اس کا وظیفہ ھے کہ تمام اسلامی احکامات کی رعایت کریں،اسلامی اور الھی قوانین کی توھین نیز دین کی توھین یا تجاھر بہ فسق (کھلے عام گناھوں کا مرتکب ھونا ) کرنے والوں کا شدت سے مقابلہ کرتی ھے یہ در حقیقت جامعہ پر اسلامی حکام کی ولایت ھی تو ھے کہ جو ان کو موظف کرتی ھے کہ ایمان اور اسلام کے تمام لوازمات پر موٴید ھیں وہ اسلام ھے جو خود انھوں نے اپنی مرضی سے قبول کیا ھے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next