اصالتِ روح

استاد شہید مرتضیٰ مطہری


- وہ بادشاہ ہے جس نے قصر بدن كو اپنے شاہی قصر كے لئے منتخب كیا ہے ۔اور كبھی كبھی اپنے سے زیادہ مزین و آراستہ كرنے میں مصروف رہتا ہے ۔

ہماری مراد شعر و شاعری كی زبان پر تنقید نہیں ہے، اس لئے كہ اس كی زبان اور ہو بھی كیا سكتی ہے، شعر و شاعری یا وعظ و خطابت كی زبان علم و فلسفے كی زبان سے مماثلت نہیں ركھ سكتی، كیونكہ ان كے مقاصدعلم وفلسفہ كے مقاصد سے مختلف ہیں ۔ ہر فن كی اس فن سے مخصوص ایك چابی ہوتی ہے اور یہ بات بدیہی ہے كہ وہ چابی صرف اسی تالے كے لئے قابل استعمال ہوتی ہے، جس كے لئے بنائی گئی ہو۔

ہمیں ایسے افراد بھی ملتے ہیں جن كی شخصیت مركب ہوتی ہے ۔ یعنی وہ بیك وقت شاعر بھی ہوتے ہیں اور فلسفی بھی ۔ ان كی بات كا انداز یكساں نہیں ہوتا ہے كیونكہ خود فلسفہ و شاعری كے انداز جدا جدا ہیں ۔

مثال كے طور پر دیكھئے روح اور بدن اور ان كے باہمی تعلق كے بارے میں ابوعلی سینا كی فلسفی كتابوں "الشفا" اور "الاشارات و التبنیھات" كی زبان اور اسی موضوع پر ان كے قصیدہٴ عینیہ كی زبان تقابل كی نظر سے ملاحظہ كیجئے ۔

 

مطلع: ھبطت الیك من المحل الارفع ورقاء ذات تعزز و تمنّع

مقصد یہ ہے كہ علم و فلسفہ كی زبان اور شعر یا وعظ و خطابت كی زبان میں امتیاز ملحوظ ركھنا چاہیے تاكہ منكر افراد اور مادیات پسند لوگوں كی طرح غلطیوں كے شكار اور بددلی میں مبتلا نہ ہوں ۔

درحقیقت فلاسفہ كے افكار و نظریات میں بھی كبھی كبھی وہ جھلك دكھائی دیتی ہے جو كم و بیش شعر و شاعری كے پیرائے اور زبان سے ملتی جلتی ہوتی ہے ۔ جیسے افلاطون سے منسوب مشہود نظریہ، جس میں وہ كہتا ہے: روح ایك قدیم جوہر ہے، جو بدن سے پہلے موجود ہے، جب بدن كا ڈھانچہ تیار ہوجاتا ہے اس وقت یہ اپنے مرتبہ سے اتركر (تنزّل) بدن سے (تعلق) ملحق ہوتی ہے ۔

سو فی صدی یہ نظریہ "دوئی"كا نظریہ ہے، اس لئے كہ روح اور بدن كو ایك دوسرے سے علیحدہ دو جوہر اور ان كے باہمی تعلق كو عرضی و اعتباری مانتا ہے ۔ جیسے طائر كا گھونسلے اور سوار كا سواری سے تعلق اوركوئی جوہری یا طبیعی تعلق جو ان دونوں كے درمیان ذاتی وحدت و پیوندكی نشاندہی كرتا ہو اسے نہیں مانتا ۔

لیكن یہ بات سبھی جانتے ہیں كہ كچھ دن گذرنے نہیں پائے تھے كہ خود افلاطون كے شاگرد ارسطونے اس نظریہ كو باطل كردیا اور سب نے اس كی تائید كی ارسطو یہ سمجھا كہ افلاطون اور اس كے سابقین كی زیادہ تر توجہ روح اور بدن كے معاملات میں نظریہٴ "دوئی" پر مبنی ہے، اور ان لوگوں نے روح اور بدن كے باہمی تعلق اور وحدت كے بارے میں زیادہ غور نہیں كیا ہے ۔ ارسطو اس نتیجہ پر پہنچا كہ روح اور بدن كے باہمی تعلق كو طائر كا گھونسلے یا سوار كا سواری جیسا تعلق نہیںمانا جاسكتا، بلكہ ان دونوں كا تعلق اس سے كہیں گہرا ہے ۔ ارسطو نے روح اور بدن كے تعلق كو صورت و مادہ كے تعلق كے مانند اس فرق كے ساتھ جانا ہے كہ چوں كہ قوةٴ عاقلہ مجرو ہے لہٰذا وہ مادّے كا جزٴ نہیں بلكہ مادّے كے ساتھ ہے ۔ اس بحث كا آخری نتیجہ یہ نكلتا ہے كہ ارسطو كے فلسفے میں روح كے قدیم اور بالفعل جوہر ہونے كا كوئی اثر نہیں ہے ۔ روح قدیم نہیں بلكہ حادث اور ابتدا میں محض استعداد وقوة ہے اور كسی طرح كا قبلی علم اسے حاصل نہیں، وہ اپنی تمام معلومات و اطلاعات كو اسی كائنات میں قوة سے فعل میں لاتی ہے، جزئی اختلاف كے ساتھ ابن سینا كے فلسفے میں بھی انہیں معنوں كی جھلك ملتی ہے، وہ دوئی، علیحدگی اور بیگانگی جو افلاطون كے فلسفے میں موجود تھی، ارسطو اور ابن سینا كے فلسفے میں نسبتاً كافی حد تك كم ہوگئی اور اس موضوع كی اساس ارسطو كے مشہور نظریہٴ مادہ و صورت اور كون و فساد پر مبنی قرار پائی ۔ اگر چہ اس نظریہ میں كچھ خاص امتیازات كی اصلی وجہ یہ دوئی كی جگہ روح اور بدن كے درمیان حقیقی تعلق اور وحدت كا قائل ہے اور یہ ایك اہم بات بھی ہے، لیكن اس كے باوجود بہت سے اہم اشكالات اور ابہامات سے بھی خالی نہ تھا ۔ اشكالات مادہ اور صورت نیز كون اور فساد كے طبیعی تعلق كی كیفیت كے بارے میں ہیں، جن كا بیان مناسب موقعہ پر ہونا چاہیے، اس صورت حال میں ضروری تھا كہ علم و فلسفے كے میدان میں قدم اٹھائے جائیں تاكہ اس معمہّ كا حل ممكن ہوسكے یا كم سے كم اس موضوع كو معقول اور قابل قبول بنایا جاسكے ۔ اب یہ دیكھنا ہے كہ یہ قدم كہاں سے اٹھائے گئے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 next