اصالتِ روح

استاد شہید مرتضیٰ مطہری


كیونكہ دیكارت خود نظریہ دوئی كی راہ سے وارد میدان ہوا ۔ اس نے دیكھا كہ جسم جس كی خاصیت ہے، بعد … اور نفس، جس كی خاصیت ہے، فكر و شعور اور ان دونوں كے درمیان ہیں دوگہرے درّے، لہٰذا وہ مجبور ہوگیا كہ انسان كے علاوہ دوسرے جانداروں میں حیات كو اصلی طاقت ماننے سے انكار كرے، اور تعجب كی بات تو یہ ہے كہ انسان كے علاوہ وہ تمام حیوانات كے اعضاء و جوارح كو نہ صرف مشینی مانتا بلكہ ان میں احساس و ادراك كا منكر بھی تھا، اس كا دعویٰ تھا كہ حیوان فاقد احساس و ادراك ہے، لذّت و الم(خوشی اور دكھ درد) كو محسوس نہیں كرتا اور یہ جو ہم دیكھتے ہیں كہ خاص موقع پر چلتا، پھرتا اور گنگناتا ہے، یہ احساس و ارادہ پر منحصر نہیں، بلكہ ان مشینوں كو اس طرح سے بنایا گیا ہے، كہ وہ خاص موقعوں پر یہ آثار ظارہر كرتی ہیں اور ہم یہ خیال كرتے ہیں كہ احساس و ارادہ كے تحت كررہی ہیں!!!

بہر حال، حیاتی قوت كی اصالت كا نظریہ ان نظریات میں سے ہے جو نئی علمی تحقیقات كی بنا پر مورد تائید قرار پایا ہے اور خاص طور سے تكامل (ایولوشن) انواع كے نظریہ نے حیاتی قوت كی اصالت اور مادے نیز طبیعت كے بے جان عناصر كی طاقت پر اس كے تسلّط كو پہلے سے كہیں زیادہ ثابت كردیا ۔ ڈاروین جو خود اس نظریہ كا موجود ہے، اگر چہ وہ حیاتی طاقت كی اصالت كو ثابت كرنے كے حق میں نہیں، لطف یہ ہے كہ یہی شخص جو اپنے كام كی بنیاد طبیعی انتخاب پر ركھتا ہے اور طبیعی انتخاب كو محض اتفاقی تغیّر كا نتیجہ قرار دیتا ہے، جب انواع كی ترقی و پیش رفت اور تكامل كی منظم رفتار كی طرف دیكھتا ہے تو خود اپنے قول كے مطابق مجبوراً جاندار طبیعت كیلئے "وجود مشخص" كا قائل ہوجاتا ہے ۔ حیاتی قوت كی اصالت كا اثبات، ڈاروین كی تحقیق كا موضوع نہ تھا ۔ شروع میں اس نے كام شروع كیا تھا، لیكن خود بخود اس نتیجہ پر جاپہنچا، یہاں تك كہ اس كے زمانے ہی میں كچھ لوگوں نے اس سے كہا كہ "تم تو طبیعی انتخاب سے مراد ایك ایسی فعال طاقت لیتے تھے جو ماوراء طبیعت ہے ۔" 1

وہ لوگ جنہوں نے انسانی نفسیات كے پہلوؤں كا مطالعہ كیا، بغیر اس كے كہ وہ حیاتی قوت كی اصالت كے بارے میں جستجو كریں اور بغیر اس كے كہ وہ اپنے فلسفیانہ تحقیقات كے نتائج سے آگاہ ہوں، اسی نتیجہ پر جاپہنچے ۔

پیكانالیز كے مشہور و معروف ماہر نفسیات فرائیڈ نے نفسیات كے میدان میں ایك انقلاب برپا كردیا، یہ دانشور اپنے مطالعے، آزمائشوں اور تجربوں كے ذریعہ اس نتیجہ پر پہنچا كہ عصبی بیماریوں كے لیے فیزیولوجی اور تشریح الاعضا كے علما كی صرف دماغ اور اس كے پیچ و خم پر تحقیق ناكافی ہے ۔ اس نے تحت الشعور كے اس گوشے كا انكشاف كیا جس كی آگاہی و اطلاعشعور پر تحقیق ناكافی ہے ۔ اس نے تحت الشعور كے اس گوشے كا انكشاف كیا جس كی آگاہی و اطلاع شعور كی سطح سے بہت گہری ہے ۔ وہ اس نتیجہ پر پہنچا كہ پریشانیوں كی وجہ سے نفسیاتی اسباب و علل كے ظہور كی بذات خود ایك حقیقت ہے اور یہی حقیقت بیماریوں كا باعث ہوتی ہے ۔ بیماریوں كا علاج نفسیاتی طریقہٴ علاج اور الجھنوں كو دور كرنے كے ذریعہ ہونا چاہیے اس سے جسمانی بیماری ختم ہوسكتی ہے ۔

نفسیاتی اور كچھ جسمی بیماریوں كا علاج نفسیاتی طریقہٴ علاج كے ذریعہ كوئی نیا تجربہ نہیں ہے ۔محمد بن زكریاء رازی اور ابن سینا نے بھی علمی طور پر اس طریقے كو اپنایا ہے، البتہ آج اس فن كا دائرہ بہت وسیع ہوچكا ہے اور اس كی بعض صورتیں واقعا حیران كن ہونے ہونے كے ساتھ ساتھ اصالت حیات اور خاص طور سے انسان میں اصالتِ روح كی تائید كرتی ہیں لیكن فرائیڈازم میں بڑا انكشاف شعور و لاشعور اور اس كے گرہ درگرہ سلسلوں كا ہے ۔ پرانے زمانے میں ملاقی ونسیاتی بیماریوں كو فقط "عادت "كے زاویے سے دیكھا جاتا تھا اورعادت اس حالت كا نام ہے جو كسی عمل كو بار بار انجام دینے سے پیدا ہوتی ہے ۔ پرانے زمانے میں كہا جاتا تھا كہ عادت: مادی حالت كی روانی جیسی حالت ہے ۔ اس كی مثال ہے:

كسی ٹہنی كو دھرا كریں پھر چھوڑدیں، تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ سیدھی ہوجائے گی دوبارہ اگر اسے دوہرا كیا جائے تو دوسری بار كم سیدھی ہوتی ہے اور اگر اس عمل كو كئی بار دہرایا جائے تو دُھری ہوجائے گی ۔ كہا جاتا تھا كہ عادت بھی كسی ٹہنی یا كاغذ كو دھرانے كے مانند ہے ۔ اسی طرح سے كوئی بھی عمل تكرار كے نتیجہ میں دماغ پر اپنا اثر و رسوخ جماتا ہے، جیسے ہم اخلاقی برائی یا اچھائی كا نام دیتے ہیں ۔ لیكن تحت الشعور یا " شعور باطن"اور "الجھنوں" كے نظریات یہ ثابت كرتے ہیں كہ اخلاقی ظواہر دوسرے ظواہر سے علیحدہ اور مستقل ہیں ۔

فرائیڈ اپنے نظریہ كے ذریعے حیاتی قوت كی اصالت یا مادہ پر حیات كی حكومت كو ثابت نہیں كرنا چاہتا تھا، بلكہ علمی تحقیقات جس كو وہ اہل بھی تھا ۔ اس میں اہلیت و شائیستگی كا ثبوت دیا ۔ لیكن جب فلسفی استنتاج و استنباط میں وارد ہوتا ہے، تو وہ شایستگی اور لیاقت كھو بیٹھتا ہے نامطلوب فرضیہ اور نظریات قائم كرتا چلاجاتا ہے ۔ بہر حال اس دانشور كی علمی تحقیقات كی قدر و قیمت جو ہے وہ مسلم ہے ۔

فرائیڈ كے بعض شاگردوں میں " یونگ"جیسوں نے نفسیاتی نظریات كے سلسلے میں فلسفی استنتاج و استنباط كے طرز میں اپنے استاد كی مكمل طور سے مخالفت كی اور اس نظریہ میں كافی حد تك حیاتی قوت كی اصالت كو نمایاں كیا اور وہ ان معنوں میں كہ فرائیڈ كے نظریہ كو ماوراء الطبیعت كا حامل پہلو قرار دیا ۔

اس سے پہلے بھی كہا جاچكا ہے كہ اس سلسلے میں سب سے بڑا اعتراض محض جسم و جان اور مادہ و حیات كی نوعیتِ اختلاف كی تشخیص سے عبارت نہیں، كیونكہ یورپی محققین كے ذریعے حیاتی قوت كی اصالت كے بارے میں شواہد پیش كرنے سے پہلے انہیں سطحی مشاہدات كی مدد سے بھی اس سلسلے میں ثبوت اور دلائل فراہم ہوسكتے تھے ۔ دوسرا بڑا اشكال، جسم و جان كے تعلق كے بارے میں طرز تصور كا ہے، جس نے بہت سے مفكرین اور دانشوروں كو حیاتی قوت كی اصالت كے بارے میں سوچنے سے دور ركھا اور جیسا كہ اس سے پہلے بیان كیا جاچكا ہے كہ اس عظیم مشكل كا حل " صدرالمتاٴلھین"كے فلسفے میں بہت ہی اچھے انداز میں پیش كیا گیا ہے ۔

حیاتی قوت كی اصالت ایسا مسئلہ ہے جو ماوراء الطبیعت پہلو ركھتا ہے، اگر حیات، مادے كا اثر و خاصیت ركھتی تو ماوراء الطبیعت پہلو اس میں نہ ہوتا ۔ كیوں كہ حیات و زندگی مادے میں حالت تركیب و انفرادكے اثر كی طرح پوشیدہ رہتی، درحقیقت جب كبھی جاندار موجود پیدا ہوتا ہے تو مادے میں كسی قسم كی تخلیق یا فوق العادہ چیز رونما نہیں ہوتی، لیكن حیاتی قوت كی اصالت كے نظریہ كے مطابق، مادہ بذات خود فاقد حیات و زندگی ہے اور جب مادے میں استعداد و صلاحیت پیدا ہوتی ہے اس وقت زندگی اور حیات كا وجود ظاہر ہوتا ہے یادوسرے الفاظ میں، مادہ اپنی تكاملی سیروحركت كے دوارن زندگی پاكر اس كمال تك رسائی حاصل كرتا ہے جو اس میں پہلے موجود نہ تھا، اسی كے نتیجہ میں وہ خاص قسم كی فعالیت حاصل ہو جاتی ہے، جس سے وہ پہلے عاری تھا، لہٰذا كسی بھی موجود كا زندہ ہونا درحقیقت اس كی خلقت و ایجاد كی دلیل ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 next