اصالتِ روح

استاد شہید مرتضیٰ مطہری


ممكن ہے یہاں یہ كہا جائے كہ یہ بات درست ہے كہ بے جان مادہ انفرادی حالت میں حیاتی خاصیت نہیں ركھتا، لیكن مادے كے اجزاء میں تركیب اور فعل و انفعال كے نتیجہ میں اگر حیات كی خاصیت پیدا ہوجاتی ہے تو اس میں كیا قباحت ہے؟

اس سوال كا جواب یہ ہے كہ چند مادی یا غیر مادی اجزاء جب ایك دوسرے كے ساتھ تركیب پاكر ایك دوسرے پر متقابل اثر ڈالتے ہیں، تو اس عمل كے نتیجہ میں كچھ اجزاء اثر ڈالتے ہیں اور كچھ قبول كرتے ہیں ۔ یہاں تك كہ " مزاج متوسط" پیدا ہوجاتا ہے اور یہ بات محال ہے كہ چند جزء تركیب پاكر ایك ایسے اثر كو جنم دیں جو اجزاء ان كے " مزاج متوسط"كے آثار كے ماسوار ہے، مگر یہ كہ ان اجزاء كی تركیب خود اپنی قوت سے بڑھ كر ایك ایسی جوہری قوت كی تشكیل كا باعث بنے جو اُن اجزاء كو واقعی وحدت بخشے، اب سوال یہ ہے كہ: مادے كے اجزاء میں تركیب اور فعل وانفعال كے نتیجہ میں اگر حیات كی خاصیت پیدا ہوجاتی ہے تو اس میں كیا قباحت ہے؟ ایك ایسا سوال ہے جو تشریح كا محتاج ہے ۔ مادے كے اجزاء میں فعل و انفعال سے مراد اگر حیاتی قوت كی تشكیل ہے اور حیاتی قوت پیدا ہوجاتی ہے تو بات قابل قبول ہے اور اگر یہ مراد ہے كہ حیاتی قوت كے بغیر مادے كے اجزا ء میں حیاتی قوت كی خاصیت (جو اجزاء كی خاصیت سے مختلف سے) پیدا ہوجاتی ہے تو محال و ممتنع ہے ۔

ایك مفروضہ اور باقی رہا، مفروضہ یہ ہے كہ مادہ بذات خود فاقد حیات ہے، اور حیات ایك ایسی قوّت ہے جو بے جان مادے كے تمام قوا پر مسلط ہے، لیكن یہاں پر دانشوروں كی تحقیق كے مطابق فرض كیا جائے، كہ بے جان موجودات میں (انرجی) قوت كی ایك مقدار معیّن و ثابت ہے اور انكا وجود و عدم، خلق ہونا نہیں، بلكہ مادے كے اجزاء كی جمع و تفریق اور انرجی كا نقل و انتقال سے خاص قسم كی قوت اگر حیات كے لئے بھی فرض كی جائے تو نتیجتہً حیاتی قوتیں بھی غیر حیاتی قوّتوں كی طرح خلق و ایجاد نہ ہوں گی، بلكہ، جمع و تفریق اور (انرجی) قوتوں كے نقل و انتقال كے نتیجہ میں ایك خاص موقع پر یكجا جمع ہوجائیں گی ۔ لہذا زندہ ہونا بھی خلق و ایجاد نہیں ۔

اس مفروضے كے بے نتیجہ ہونے كے بارے میں ہم كہیں گے: سب سے پہلے حیاتی (انرجی) قوت كے بارے میں توضٰح دی جائے، كہ آیا یہ قوت بذات خود بے جان میں ہوتی ہے یا جاندار میں؟ اور اگر دوسرے مفروضہ كے مطابق جاندار میں ہوتی ہے، تو آیا یہ ایسی شعئی ہے جو حیات ركھتی ہے؟ یعنی حیات كیا اُس شئی سے جدا اور مستقل چیز ہے، جس كے ساتھ وہ مل جل كر رہتی ہے یا كوئی تیسرا مفروضہ یعنی عین حیات ہے؟ پپہلے اور دوسرے مفروضہ كے مطابق حیاتی قوت اور دوسری قوّتوں میں (ان كے حیاتی یا باعثِ حیات ہونے كے اعتبار سے) كسی قسم كی حیات قوت نہیں ۔ اس لئے كہ یہ قوت یا تو مكمل طور سے زندہ نہیں (پہلا مفروضہ) اور یا پھر باعث ِحیات وہ اضافہ شدہ چیز ہے جو اس كی ذات میں نہیں لیكن ا س سے وابستہ ہے ۔ رہی تیسرے مفروضہ كی بات تو اس كے معنے یہ ہیں كہ (حیات اور حیاتی قوت) وہ مجرد موجود ہے جو اپنے آثار باقی ركھتے ہوئے تنزل پیدا كركے مادے كی شكل اختار كرتا ہے ۔ یہ محال ہے ۔ البتہ تنزّل كے نام سے جو فلسفی دعویٰ كرتے ہیں كہ كائنات اور مادہ، ماوراء طبیعت كی تنزّل یافتہ شكل ہے تو اس كی نوعیت قوت كے نقل و انتقال اور تغیر اشكال كی نوعیت سے مختلف اور بذات خود ایك جدا بحث ہے ۔ ان دونوںكوایك نہیں سمجھنا چاہے ۔ دوسرے یہ كہ بالفرض بے جان مادّے میں خلق و ایجاد كے منكر ہوں، اور ان موجودات كی تخلیق كو مادے كے اجزاء كی جمع و تفریق اور قوتوں كے نقل و انتقال كے سوا اور كچھ نہ جانیں، تو جاندار موجودات میں دانشوروں كی رائے كے مطابق یہ بات صادق نہین آتی ۔ حیات كے خصوصیات میں ایك خصوصیت یہ بھی ہے كہ اس كے لئے كوئی معیّن اور ثابت مقدار فرض نہیں كی جاسكتی اور ایك نقطہ كی دوسرے نقطہ كی جانب حیات كے انتقال اور موجودات كے زندہ ہونے كو بھی درحقیقت ایك قسم كا تناسخ كہنا مناسب نہیں ۔ اسلئے كہ حیات كی كوئی ثابت اورمعین مقدار نہیں، جس دن سے زمین پر حیات ظاہر ہوئی ہے اس دن سے ترقی كی طرف گامزن ہے اور اگر اتفاقاً ختم ہوجائے یعنی بہت سے جاندار موت كے گھاٹ اتر جائیں تو وہ انرجی كسی دوسرے نقطہ پر متمركز نہیں ہوتی ۔ البتہ حیات و موت ایك قسم كا بسط و قبض ہے ۔ لیكن ایسا بسط و قبض جس كا تعلق كائنات كے وجودی درجہ سے كہیں بلند و بالاتر ہے، وہ فیض ہے جوغیب سے آتا اور اسی جانب واپس ہوجاتا ہے ۔

مذكورہٴ بالا باتوں كی تائید كے لئے ہم یہاں پر" ازوالڈكولپہ" كی موٴلفہ كتاب " مقدمہ ای بر فلسفہ"ترجمہٴ جناب احمد آرام، سے كچھ اقتباسات پیش كررہے ہیں ۔ مذہب مادیت پر تنقید كرتے ہوئے " اِزوالڈ كولپہ" كہتا ہے:

" مذہب مادیت جدید علم فزكس كے قوانین میں اسے ایك اہم قانون " بقائے قوت" كی مخالفت كرتاہے، اس قانونكے مطابق دنیا میں موجود انرجی كی مكمل مقدار قائم ہے، ہمارے چاروں طرف جو تغیّرات اور تبدیلیاں نظر آتی ہیں، وہ انرجی كے ایك نقطہ سے دوسرے نقطہ تك انتقال اور ایك صورت سے دوسری صورت و شكل اختیار كرنے كے سوا كچھ نہیں، اس قانون كے مطابق بخوبی واضح ہوجاتا ہے كہ فزكس كے آثار و ظواہر ایك " مربوط حلقے" كی تشكیل كرتے ہیںجس میں عقلی اور نفسیاتی آثار و ظواہر كی گنجائشناممكن ہے ۔ لہٰذا دماغی عملیات خاص قسم كی پیچیدگی اور ابہام ركھنے كے باوجود اُن ظواہر میں محسوب ہونگےجو قانون (علّت و معلول) علیّت كے تابع ہوتے ہیں اور خارجی اثرات كے نتیجہ میں جو تغیّرات دماغ پر طاری ہونگے وہ بہر حال خالص فریكل اور كیمكل شكل میں ہوں گے پھر اسی شكل میں انہیں منتشر بھی ہونا چاہئے، اس طرح كے كلّی نظریہ سے اشیار كا(عقلانی ہونا) عقلی پہلو ہوا یں معلق رہ جاتا ہے ۔ اس لیے كہ ظواہر كی فزیكل قوت سے كچھ كم و كاست كیے بغیر نفسیاتی ظواہر كو فزیكل اور مادی تصوّر كرنا كیسے ممكن ہے؟ اس كا منطقی حل صرف یہ ہے كہ ہم عقلی عملیات كے لئے بھی اس كی دوسری كمیكل، الكٹریكل اور حرارتی اور مكاینكی قوتوں كے مدمقابل ایك خاص قوّت كے قائل ہوجائیں، اور یہ قبول كرلیں كہ اس خاص قوت اور دوسری جانی پہچانی انرجیوں كے درمیان وہی نسبت ثابت و برقرار ہے جو دوسری تمام قوتوں كے درمیان موجود ہے، لیكن یہ كہنا لازمی ہے كہ مادیت پسند علما اور دانشوروںے اس نظریہ كے بارے میں نہ اظہار خیال كیاہے اور نہ ہی كسی نے مادیت پسند تحریروں میں اس پر تفصیلی گفتگو كی ہے البتہ مجموعی اعتراضات جو اس عقیدے كے مدمقابل ہیں ان پر اظہار نظر سے روكتے رہتے یں ۔ تمام ہونے والے اعتراضات كی اساس یہ ہے كہ فزكس كے ماہرین، انررجی كی جو تعبیر كرتے ہیں وہ عقلی فكری ظواہر و اعمال پر ہرگز قابل انطباق نہیں ہے ۔

كرسی موریسن اپنی كتاب "راز آفرینش انسان" ترجمہ محمد سعیدی "میں بیان كرتا ہے:

"جانوروں كے درمیان صاحب فكر و شعور انسان كا ظہور، اس تصورسے كہ یہ ظہور مادے كے تحوّل اور تبدیلی كا معلول ہے اور كسی خالق كا اس میں دخل نہیں" كہیں بلند و بالاتر ہے ۔ اس صورت كے علاوہ انسان كو ایك مكانیكی آلہ ہونا چاہیے جس كی كاركردگی دوسرے كے ہاتھ ہے ۔ اب یہ دیكھا جائے كہ اس مشین سے كاملینے اور اسے چلانے والا كون ہے؟ سائینس نے اب تك اس مشین كے چلانے والے كے بارے میں نہ كوئی تاویل پیش كی ہے اور نہ ہی اسے پہچان سكی ہے، لیكن دنیا بھر میںیہ بات مسلم ہے كہ اس مشین كو چلانے والا بذات خود مادے كا جز نہیں ہے ۔"

اسی طرح كہتا ہے؛

" مادّہ، اپنے ذاتی قوانین و مقررات كے سوا كوئی عمل انجام نہیںدیتا، ذرّات اور ایٹم زمینی قوت جاذبہ اوركیمیاوی فعل و انفعالات نیز فضائی اثر اور الكٹریسٹی سے متعلق قوانین كے تابع ہیں ۔ مادہ بذات خود كوئی نیا عمل كرنے كی صلاحیت نہیں ركھتا یہ فقط زندگی ہی ہے جو ہر لمحہ خوبصورت اور نئے نئے مناظر پیش كرتی رہتی ہے ۔"

علماء و حكما، علّت و معلول یا كائنات كے رموز و اسرار سے متعلق بحث كرتے ہوئے (جیسے ابن سینا، اشارت كی دسویں تمط میں) روحی آثار و قوا كا ذكر خصوصیت سے كرتے ہیں صدرالمتاٴلھین ملا صدرا نے علّت و معلول سے متعلق بحث كو اسفار میں ایك فصل كی شكل دی ہے اور وہ اس عنوان سے كہ: "فكرو تصوّر كبھی كبھی اشیاء كے حدوث كا سبب بنتے ہیں" اس فعل سے انكی مراد مادے پر حیات كی حكومت و قاہریت نیز فكر و تصوّر كے اثرات كا اثبات ہے جو شئون حیات میں داخل ہے ۔

اس فصل كے اجزا (پیراگراف اور ضمنی مباحث) میں ایك موضوع یہ بھی چھیڑا ہے كہ صحت و بیماری كی ایجاد میں سمجھنے سمجھانے اور توہم كے اثرات كا بھی دخل ہے ۔

بحث بہت طویل و دلچسپ 2 ہے مگر ہم اسی پر اكتفا كرتے ہیں كہ آج كے دور میں اس پرانے اور دقیانوسی طرز فكر (دنیا محض مشینی دنیا ہے اور خلقتِ ذرّات كی تاٴلیف و تركیب اور جمع و تفریق كے سوا اور كچھ نہیں) كہ كوئی گنجائیش نہیں رہ گئی، بات اس كے آگے بڑھ چكی ہے ۔

دانشوروں كی تحقیقات نے مادیت پسندوں كے غرور كو مكمل طور سے ختم كردیا ہے اور اب كوئی ڈیكارتے اور دوسروں كی طرح یہ نہیں كہے گا كہ "مادہ اور حركت مجھے دے دو میں دنیا بناؤں گا" دنیا كی شاخیں اس سے كہیں زیادہ ہیں كہ ہم اسے مادہ، اور مادے كی حسیّ اور عرضی حركت میں محصور كرسكیں ۔

---

1. دارونیسم: تالیف ڈاكٹر محمود بہزاد طبع پنجم ص ۹۹

2. تفہیم و تلقین اور اس كے اثرات "تداوی روحی" تالیف كاظم زادہ ایرانشہر



back 1 2 3 4 5 6 7