اصالتِ روح

استاد شہید مرتضیٰ مطہری


یورپ میں فكری اور علمی تحوّل كے مقدمات فراہم ہوئے اور مكمل طور سے انقلاب آگیا انقلاب كی خصوصیت یہ ہے كہ ترو خشك كی تمیز نہیں كرتا ۔ گذشتہ اعتقادات و مبانی بے اساس ہوگئے ۔ انقلابیوں نے تمام اشیاء كے لئے نئے منصوبے تیار كیے یہاں تك كہ روح اور بدن كے مسئلہ میں بھی نئے نظریات قائم ہویے ۔ فرانس كے مشہور فلسفی "دیكارت" نے روحاور بدن كی دوئی سے متعلق ایك خاص نظریہ پیش كیا، جس پر كچھ دن بعد ردو قبول كی بحث شروع ہوئی پھر نظریے كی تراش خراش اور اصلاح كی طرف توجہ كی گئی ۔

دیكارت نے فكری ارتقا كی منزلیں طے كرنے كے دوران خود كو تین حقیقتوں كے ماننے پر مجبور پایا، خدا، نفس اور جسم۔ اس نے اس لحاظ سے كہ نفس، فكرو شعور ركھتا ہے اور بُعد (جہت) نہیں ركھتا… جسم بُعد ركھتا ہے اور فكرو شعور سے خالی ہے ۔ اس طرح و یكارت نے نفس و بدن كو دوچیزیں جانا ۔

دیكارت كے نظریے پر جو معقول اعتراض ہوا (سب سے پہلے خود یورپی افراد نے كیا) وہ یہ تھا كہ اس نے صرف دوئی اور روح و بدن كے ایك دوسرے سے جدا ہونے كے بارے میں بیان كیا اور اُس تعلق كے بارے میں جو روح اور بدن كے درمیان موجود ہے كوئی ذكر نہیں كیا ہے…دوسری بات یہ ہے كہ جب یہ دونوں ایك دوسرے سے جدا دومختلف چیزیں ہیں تو ایك دوسرے سے ملیں كیسی؟ روح اور بدن كے بارے میں قابل ذكر سب سے اہم مسئلہ اس تعلق كا ہے جو ایك لحاظ سے بدن اور روح یا روحی خواص كے درمیان موجود ہوتا ہے ۔

درحقیقت، دیكارت كا نظریہ ایك طرح سے افلاطون كے نظریے كی طرف بازگشت ہے ۔ یہ محسوس ہوتا ہے كہ دوبارہ طائر اور گھونسلے كی یاد دلائی جارہی ہے ۔ كیونكہ دیكارت فطری اور ذاتی تصوّرات كاقائل ہے اور كہیں كہیں پر شروع سے ہی اس نے نفس كو موجود مانا ہے، اس لحاظ سے اس كا نظریہ افلاطون كے نظریہ سے قریب ہوجاتا ہے ۔ دوسرے یہ كہ روح اور بدن كے باہمی تعلق كے بارے میں اس كا بیان اتنا ہی مختصر ہے جتنا كہ نظریہٴ افلاطون كا بیان مختصر تھا ۔

یہ رجعت پسندی بہت ہی نقصان دہ ثابت ہوئی، اس لیے كہ روح اور بدن كا ایك دوسرے سے تعلق كوئی ایسا مسئلہ نہ تھا جیسے چھپایا جانا ضروری ہو اور محض ان دونوں كی جدائی كے اسباب و وجوہ پر اكتفا كی جائے ۔ لہٰذا دیكارت كے بعد دانشوروںنے ان دونوںكے مابین تعلق كوجاننے كی كوشش شروع كی، جو شخص تاریخ فلسفہٴ عصر جدید سے پوری طرح باخبر ہے، وہ جانتا ہے كہ روح اور بدن كے تعلق كے بارے میں جانكاری حاصل كرنے كے لئے نئے فلاسفر نے كتنی كوشش كی ہے اور كتنے مكاتب فكر اور مختلف نظریات نے جنم لیا اور كس حد تك افراطو تفریط میں آگے بڑھ چكے ہیں، كچھ لوگوں نے نفسیاتی ظواہر كو تركیبات مادہ كی معمولی خاصیت جانا اور ہر طرح كی دوئی (روح اور بدن كے درمیان) ہونے كے انكاری ہوگئے، دوسرے گروہ نے جسم اور مادہ كو بے بنیاد، اور روح كے لیے محض نمائش جانا ۔ اس طرح سے انہوں نے اپنے خیال میں روح اور بدن كی جدائی اوردوئی كو ختم كیا، ایك ایسا گروہ بھی ہے جس نے تھك كر اس بحث كو انسان كی قدرت ہی سے خارج قرار دیدیا ۔

اگر چہ روحی اور جسمی امور اور ان كے باہمی تعلق كے بارے میں دور حاضركے دانشور اور فلسفی كسی مفید نتیجہ پر نہیں پہنچ سكے، لیكن ان كی بے انتہا كوشش نے سائینس كے تمام شعبوں، خاص طور سے حیاتیات، فیزیالوجی اور نفسیات میں بہت اچھے اچھے فوائد و نتائج اہل علمكے حوالے كیے كبھی بھی ان مضامین پر كام كرنے والے محقق روح اور بدن نیز ان دونوں كے درمیان تعلق كے بارے میں اپنی تحقیقات كے نتائج حاصل كرنے كے سلسلے میں سوچ بھی نہیں سكتے تھے، لیكن ان تحقیقات نے اس مسئلہ كی تحقیق كے لیے راہ ہموار كردی اور ہم انشاء الله ان نكات كی طرف اشارہ كریں گے ۔

ابتدا میں ہم نے ارسطو اور ابن سینا كے نظریہ كی طرف اجمالی طور پر اشارہ كرتے ہوئے بیان كیا تھا كہ اس نظریہ میں روح اور بدن كی وحدت اور تعلق كی طرف توجہ مبذول ہوئی اور افلاطون كا نظریہٴ دوئی رفتہ رفتہ فراموش كے سپرد ہوگیا ۔

اب یہ غور كرنا ہے كہ ابن سینا كے بعد آنے والے مسلمان فلسفیوں كے نزدیك اس مسئلے نے كیا صورت اختیار كی؟

ابن سینا كے زمانے كے بعد مسلم فلاسفہ نے براہ راست اس مسئلہ پر تحقیقی كام انجام نہیں دیا، لیكن فلسفے كا سب سے عام اور اساسی اور مقدّم مسئلہ یعنی فلسفہٴ وجود میں ترقی اور تحول كے اعتبار سے ایك عظیم انقلاب آیا، جس نے ایك طرح سے زیادہ تر فلسفی مسائل خاص طور سے روح اور بدنكےمسئلہ وحدت اور دوئی كو متاثر كیا ۔

اس مقالے میں اشاروں پر اكتفا كرتے ہوئے محض اتنا كہا جاسكتا ہے كہ "صدرالمتاٴلھین" نے جو مسائل "وجوہ" میں عظیم تبدیلی لانے والے مفكرین و فلاسفہ كے گروہ میں قد آور شخصیت كے مالك ہیں ۔ صدرالمتاٴلھین ملاصدرا نے اپنے وضع كردہ نئے، مستحكم اور اعلی اصول سے یہ نتیجہ اخذ كیا كہ اس كائنات كی ظاہری اور محسوس ہونے والی حركات كے علاوہ ایك گہری، جوہری اور نامرئی حركت ایسی بھیموجود ہے جو اس كائنات پر حكم فرما ہے اور وہی موجود ظاہری حركتوں كی بنیاد ہے ۔ اگر كسی صورت اور مادہ كو فرض كرنا ہو تو اس طریق كے علاوہ فرض نہیں كرنا چاہیے ۔ مختلف اجسام كی تخلیق اور تشكیل قانون كون و فساد پر نہیں، بلكہ قانونحركت پر مبنی ہے ۔ اسی طرح نفس اور روح دونوں قانون حركت كا نتیجہ ہیں ۔ نفس كی تشكیل كا نقطہٴ آغاز جسمانی مادہ ہے اور مادے میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے كہ وہ اپنے اندر اس موجود كی پرورش كرے جو ماوراء الطبیعہ كے برابر ہو، دراصل طبیعت اور ماوارء الطبیعہ كے درمیان كسی قسم كی دیوار نہیں ہے اور كوئی مادی موجود ترقی و تكامل كی راہ طے كرتے ہوئے غیر مادی موجود میں بدل جائے كوئی قباحت نہیں ہے ۔ نفس كے نقطہٴ تشكیل اور اس كے تعلق كے بارے میں افلاطون نیز ارسطو كا خیال كسی بھی طرح صحیح نہیں ہوسكتا ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 next