علم اور دین کے مخصوص دائرے



 

مذکورہ شبہ غیر مذھبی طریقہ سے

اب تک اس شبہ کے جواب میں بحث کی گئی ھے جو قرآنی اور دینی لھجہ میں تھا، اور یہ شبہ اس شخص کی زبان سے تھا جو خود مسلمان اور دیندار کھلاتا ھے، اور آیات قران کو دلیل بناتا ھوا یہ نتیجہ اخذ کرتا تھا کہ اسلام کو الزام آور فرمان نھیں دینا چاھیے، یعنی اسلام کو لوگوں کی زندگی میں دخالت نھیں کرنا چاھیے کیو نکہ یہ دخالت خود اسلام کی قبول کردہ آزادی کے خلاف ھے۔

اس وقت اس اعتراض کے بارے میں بحث کرتے ھیں کہ جو غیر مذھبی طور پر کیا جاتا ھے، اس اعتراض میں شبہ کرنے والے کی یہ فکر ھے کہ اسلام کے الزام آوراحکام اور اس کی اطاعت و پیروی کو جوھر انسانیت سے نا سازگار اور منافی قرار دے، اگرچہ یہ شبہ چند طریقوں سے کیا گیا ھے، ھم یھاں پر بعض طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ھیں۔

منطق کی اصطلاح میں”اختیار“ انسان کی فصل اور مقوم ھے اور اسی سے جوھر انسانیت کی وجود پاتا ھے، لھٰذا اگر ھم انسان سے اختیار اور اس کی آزادی کو سلب کرلیں اور اس کو مجبور کریں تو گویا ھم اس سے انسانیت کو سلب کررھے ھیں اور گویا اس کو ایک حیوان کی مانند قرار دے رھے ھیں،اور اس کی گردن میں لگام ڈال کر ادھر اُدھر کھینچ رھے ھیں، لھٰذا انسان کی اھمیت اس چیز کا تقاضا کرتی ھے کہ اس کو ”حق انتخاب“ دیں، اور اسکا نتیجہ یہ ھوگا کہ دین اس کے لئے الزام آور احکام بیان نہ کرے، اور اگر اس کو پیغمبر، ائمہ اور نائبین ائمہ کی اطاعت کے لئے مجبور کرے، تو اس صورت میں انسانیت کااحترام او راس کی اھمیت ختم ھوجاتی ھے اور گویا ھم اس کو حیوان کی طرح قرار دیکر ادھر اُدھر لے جارھے ھیں۔

 

”ھیوم “کا اعتراضات اور ان کے جوابات

اول: ھم مذکورہ اعتراض کے دو جواب پیش کریں گے اور چونکہ معترض کا اعتراض ھیوم کے اعتراض کی طرح ھے ، ھیوم کا اعتراض یہ ھے کہ عقل نظری ”است ھا“(ھے) کو درک کرتی ھے اور عقل عملی ”باید ھا ونباید ھا“(فلاں چیز ھونی چاھئے اور فلاں چیز نھیں ھونی چاھئے) کو درک کرتی ھے اور چونکہ عقل نظری کا ،عقل عملی سے کوئی ربط نھیں ھے لھٰذا عقل عملی کی درک شدہ چیزووں (بایدھا ونباید ھا) کو عقل نظری کی بنیاد قرار نھیں دی جاسکتی۔

ھیوم کا اعتراض مغربی فلاسفہ کی قابل توجہ قرار پایا اور انھوں نے اس کو بھت سی علمی چیزوں کی بنیاد قرار دیا، جمھوری اسلامی ایران کے انقلاب کے بعد بھت سے مغربی دانشمندوں نے یہ اعتراض کیا کہ ھم ”است ھا“ سے ”باید ھا“کا نتیجہ نھیں نکال سکتے مثلاً اگر کوئی شخص ایک خاص صفت رکھتا ھے تواسکا نتیجہ یہ نھیں لیا جاسکتا ھے کہ اس طرح ھونا چاھئے یا نہ ھونا چاھئے، کیونکہ ”است ھا“ کی درک کرنے والی عقل نظری ھے اور ”باید ھا“ کو درک کرنے والی عقل عملی ھے، جبکہ ان دونوں میں کوئی ربط نھیں ھے۔

ھیوم کے اس اعتراض کو ماننے والے یہ کھتے ھیں: لوگوں کو کسی کام پر مجبور کرنا ان کی انسانیت کے خلاف ھے، لھٰذا دین کو الزام آور احکامات پیش نھیں کرنا چاھئے، کیونکہ انسان مختار اور آزاد ھے ، پھلے یہ کھتے ھیں کہ انسان مختار ھے لھٰذا اس کو آزاد رھنا چاھئے ، اور اس کو مجبور نھیں کیا جانا چاھئے اس بناپر انسان کے مختار ھونے سے کہ جو ”است ھا“ میں سے ھے اور جس کو عقل نظری درک کرتی ھے ”باید ونباید“ کہ جس کو عقل عملی درک کرتی ھے کا نتیجہ لیتے ھیں اور ان کی بنیاد یھی تناقض ھے کہ جس کو وہ خود قبول کرتے ھیں کہ ”است ھا“ کے ذریع ”باید ھا“کا نتیجہ نکلے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next