قانون کے سلسلے میں غرب کی مادی نگاہ



جو افراد فلسفہ حقوق سے آشنا ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ فلسفہ حقوق کے مکاتب میں سے ایک ”حقوق طبیعی“ ہے، گذشتہ زمانہ اور جب سے تاریخ فلسفہ مدون ہوئی ہے کچھ لوگوں نے اس موضوع سے متعلق بحث کی ہے ۔

یونان کے بعض قدیم فلاسفہ معتقد تہے کھ:انسان حقوق رکھتے ہیں جن کو طبیعت نے ان کو دیئے ہیں انسان کی طبعیت میں حقوق وضع کئے گئے ہیں اور کوئی شخص ان حقوق کو ان سے سلب نہیں کر سکتا، اس لئے کہ انسانی طبیعت نے افراد کیلئے ان حقوق کا ایجاب کرلیا ہے اور اسی بنیاد پر وہ نتیجہ گیری کرتے ہیں اور ظاھراً یہ نتائج ایک دوسرے کے سازگار نہیں ہوتے اور یہیں سے فلسفہ حقوق و اخلاق کے باب میں ایک معروف مغالطہ ایجاد ہوا جسکو ”مغالطہ طبیعت گرایانھ“ کہا جاتا ہے، کیونکہ کچھ افراد کھتے ہیں کہ انسان متعدد طبیعتیں رکھتا ہے مثال کے طور پر سفید گورے انسانوں کی ایک طبیعت ہوتی ہے اور کالے انسانوں کی دوسری طبعیت ہوتی ہے، کالے انسان جسم کے اعتبار سے گورے انسانوں سے زیادہ طاقتور اور فکری اعتبار سے ضعیف (کمزور) ہوتے ہیں، اسی طرح کا نظریہ ارسطو کا بہی نقل ہوا ہے (یہ غلط فہمی نہ ہوجائے کہ حقیر ان نظریات کو تسلیم نہیں کرتا ہوں اور فقط نقل کرتا ہوں) جب کالے انسان بدن کے اعتبار سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں تو ان کو صرف بدنی کام انجام دینا چاہیے؟! اور گورے افراد فکری اعتبار سے زیادہ قوی ہیں تو معاشرہ کے تمام اداری کام ان کے حوالہ کردینے چاہییں، نتیجتاً بعض انسان دوسرے انسانوں کی خدمت کیلئے پیدا ہوئے ہیں اسی وجہ سے غلامی ایک ”طبیعی“ قانون ہے، ہم ابہی اس بحث کو چہیڑنا نہیں چاھتے کہ کیا کالے انسانوں کی طبیعت اس چیز کا تقاضا کرتی ہے یا نہیں؟ یہ خود ایک مفصل بحث ہے اور اس کے لئے بھت زیادہ وقت درکار ہے ۔

بھرحال طول تاریخ میں حقوق طبیعی کے باب میں سب سے زیادہ عاقلانہ، معتدل اور سالم مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر کوئی چیز انسانوں کی طبیعت کلی کی مقتضی ہوتی ہے تو وہ متحقق ہوتی، انسان کو اس طرح کی طبیعت کلی کے اقتضا ٴ سے محروم نہیں کرنا چاہیے، یہاں تک تو مطلب کچھ قابل تسلیم ہے لیکن اس کے قطعی اثبات کے لئے استدلال کی ضرورت ہے کہ کیوں جو چیز انسان کی طبیعت کے متقاضی ہے اس کو بجالایا جائے اور انسان کو اس سے محروم نہ رکہا جائے؟ یہ بھر حال اس مطلب کے اصل مشترک کے عنوان سے تسلیم کیا گیا ہے ۔ہمارا بہی یہی عقیدہ ہے کہ جو انسان کی طبیعت کی اقتضا ٴ کرتی ہے اور طبیعی طور پر وہ تمام انسان تقاضہ کے اعتبار سے مشترک ہےں تو انسان کو اس طرح کی ضروتوں سے محروم نہیں کرنا چاہیے اس مطلب کی تائید میں عقلی استدلال بہی موجود ہیں جن کو ہم فعلی طور پر بیان نہیں کرنا چاھتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ ان ضروتوں کے مصادیق کیا ہیں؟انسان کی طبیعت کو کہانے کی ضرورت ہوتی ہے اور تمام انسانوں کو غذا کی ضرورت ہے اس بنا پر کسی انسان کو کہانا کہانے محروم نہیں کرنا چاہیے یعنی نہ اسکی زبان کاٹی جائے یا اسکو کوئی ایسی دوا کھلادی جائے جس کی وجہ سے وہ بات کرنے سے محروم ہو جائے اور یا اسی طرح کے دوسرے امور، لیکن اس بات کی طرف متوجہ رھنا چاہیے کہ اس طرح کے مطالب بیان کرنے کے خاص اھداف ہوتے ہیں۔

۳۔یورپ میں حقوق بشر کی حدود

آپ حضرات جانتے ہیں کہ اس عصر (دور) کے آخر میں عالمی پیمانہ پر حقوق بشر کے عنوان سے ایک مسئلہ کا اعلان کیا گیا، شروع میں اس اعلان کی چہیالیس ملکوں کے نمائندوں نے تائید کی اس کے بعد آھستہ آھستہ دوسرے ممالک بہی ان سے ملحق ہوگئے اور نتیجتاً وہ اعلان عالمی اعلان کی صورت میں بدل گیا، اس اعلان میں انسانوں کیلئے حقوق بیان کئے گئے، منجملہ یہ حقوق کہ آزادی بیان، مکان منتخب کرنے کی آزادی، شغل اختیار کرنے کی آزادی، مذھب انتخاب کرنے کی آزادی اور ہمسر انتخاب کرنے کی آزادی ہے ۔

یہ حقوق (جن کیلئے اس اعلان میں استدلال بہی نہیں کی گیا) کہاں سے وجود میں آئے اور کس طرح تمام انسانوں کے حقوق کے عنوان سے بیان کئے گئے اسکا مفصل ایک تاریخچہ ہے، فلسفہ حقوق سے آشنا حقوق دانوں کو (خاص طور سے مسلمان حقوقدان) کی طرف سے اس اعلان میں بھت سی بحثیں بیان کی گئی ہیں، منجملہ یہ بحث کہ !وہ فلسفی مطالب جن کو تم انسانوں کے حقوق کے عنوان سے بیان کرتے ہو اور ان کو مطلق جانتے ہو اور تمہارا یہ عقیدہ ہے کہ ان کو کسی کو محدود کرنے کا حق نہیں وہ کیا ہیں؟ اور ان کیلئے کون سا استدلال پایا جاتا ہے؟

کیا ان کی مشخص و معین کرنے کی کوئی حد ہے یا نہیں؟ اور کیا یہ حقوق مطلق طور پریہ حقوق قانون سے بلند درجہ رکھتے ہیں اور کسی قانون کو ان حقوق کو محدود کرنے کی اجازت نہیں؟ کیا کوئی قانون آزادی بیان کی حدود کو معین کرنے کی اجازت نہیں رکھتا؟ کیا کسی قانون کو انتخاب ہمسر کو محدود کرنے کی اجازت نہیں؟ کیا کوئی قانون ایسا نہیں ہے جو یہ بیان کر سکے کہ تم کو اپنی مملکت کی حدود سے باھر مسکن کو انتخاب کرنے کا حق نہیں ہے؟ کیا کسی قانون کو ان حقوق کی حدود کو مشخص و معین کرنے کی اجازت نہیں ہے؟

جب ہم یہ کھتے ہیں کہ فلاں مطلب طبیعی حق ہے اور انسان کی طبیعت کے متقاضی ہے اور بالفرض اس پر عقلی استدلال بہی موجود ہو تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان حقوق کی کوئی حد نہیں ہے؟اگر حدبندی ہے تو کون اس حدبندی کو کون معین ومشخص کرتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ خود اعلان کو لکھنے والے اور اکثر اس اعلان کی تفسیر کرنے والے (جہاں تک حقیر کی اطلاع میں ہے) بہی ان سوالوں کا صحیح جواب دینے سے کتراتے نظر آتے ہیں۔

آخر کار یہ کہ آزادی قانون سے بلند و بالا ہے اس سے مراد کیا ہے؟ کیا کچھ ایسی آزادیاں بہی ہیں جن کو محدود کرنے کا کسی قانون کو حق نہیں؟ کیا ہم یہ سوال نہیں کر سکتے کہ ان آزادیوں کی حد کہاں تک ہے؟ کیا آزادی بیان کا یہ مطلب ہے کہ ھر شخص جو کچھ اسکا دل کہے وہ سب کھہ ڈالے؟! ہم تو یہ مشاھدہ کرتے ہیں کہ کوئی ملک ایسی اجازت نہیں دیتا اور آزادی بیان کیلئے حدبندی کا قائل ہوتا ہے، مثال کے طور پر باشخصیت افراد کی توہین کرنا دنیا میں کہیں بہی جائز نہیں ہے ۔

۴۔آزادی کی حدبندی میں تعارض کا ظاھر ہونا



back 1 2 3 4 5 6 next