قانون کے سلسلے میں غرب کی مادی نگاہ



اب یہ سوال در پیش ہے کہ آزادیوں کی حدبندی کہاں تک ہے اور کون اس کو معین کرتا ہے؟ اس کا مجمل جواب یہ ہے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ آزادی قانون سے بلندو بالا ہے اور اس کو محدود نہیں ہونا چاہیے اس سے مراد شرعی آزادیاں ہیں، کچھ افراد کھتے ہیں کہ مشروع اور معقول آزادیاں اور کچھ دوسرے افراد نے دوسری قید کا اضافہ کیا ہے، حقوق بشر کے اعلان میں اس کو ”اخلاقی“ سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی اخلاقی موازنہ کے ساتھ حقوق کی رعایت کرنا اور کم وبیش یہ ایک مبہم معنی رکھتاہے اور مشروع قانون سے ان کی مراد یہ نہیں ہے کہ دین اسلام جیسی شریعت نے اس قانون کو جائز قرار دیا ہو، اگرچہ لغت کے اعتبار سے ریشہ مشروع اور شریعت ایک ہے لیکن حقوق و سیاست کے بارے میں مشروع سے مراد وہ قانون ہے جسکو حکومت معتبر جانتی ہو نہ یہ کہ ھر حال میں شریعت نے ہی اس کو اجازت دی ہو، بعض متدین افراد کو یہ مطلب شک و شبہ میں نہ ڈال دے کہ جب ہم یہ کھتے ہیں کہ مشروع حقوق یا مشروع آزادیاں تو ان کو شریعت اسلام نے مشخص و معین کیا ہے، مشروع سے ان کی مراد وہ حقوق ہیں جو معتبر اور قانونی ہیں، اور نامشروع سے مراد دوسروں کے حقوق سے تجاوز کرنا ہے ۔

لیکن یہ سوال در پیش ہے کہ کونسے حقوق مشروع اور معقول ہیں اور کونسے نامشروع اور نامعقول ہیں؟ اور کس شخص کو انہیں معین و مشخص کرنا چاہیے؟ ان کے پاس اس جواب کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ آزادی سے مربوط جزئیات اور حدود کو قانون معین و مشخص کرتا ہے اور یہیں سے سب سے پھلے تناقض اور تعارض کا آغاز ہوتا ہے کھ: ایک طرف تو وہ یہ کھتے ہیں کہ یہ حقوق اور آزادیاں قانون سے زیادہ اونچا درجہ رکھتی ہےں اور کوئی قانون ان کو محدود نہیں کرسکتا ہے، لیکن جب ہم ان سے کھتے ہیں کہ یہ آزادی مطلق ہے یا محدود؟ تو وہ جواب میں کھتے ہیں کھ: مطلق آزادی نہیں ہے چونکہ وہ صحیح جواب نہیں دے سکتے اس لئے کھتے ہیں کہ ہماری مراد مشروع آزادیاں ہیں۔

جب ہم ان سے کھتے ہیں کہ مشروع سے کیا مراد ہے؟ تو جواب دیتے ہیں کہ جس چیز کو قانون نے تصویب کر دیا ہو، یعنی قانون آزادی کی حدبندی کو مشخص و معین کرتا ہے،اور ابہی تو تم نے تو یہ کہا تہا کہ یہ آزادیاں قانون سے بلند و بالا ہیں۔

ممکن ہے آپ اس کا یہ جواب دیں کہ مشروع اور معقول آزادیوں سے تمام انسان اور عقلائے عالم واقف ہیں، ہم ان سے کھتے ہیں کہ جس مطلب کو تمام انسان اور عقلائے عالم جانتے ہوں تو پھر بحث ہی ختم ہو جاتی ہے، چونکہ ہم اور تمام مسلمان انہیں میں شمار کیے جاتے ہیں، اور دنیا میں تقریباً ایک میلیارد اور چند لاکہ مسلمان ہیں اور عقلا ء بہی انہیں میں شامل ہیں، اور سب یہ کھہ سکتے ہیں کہ اسلام میں کس قسم کی آزادیوں کو قبول کیا گیا ہے اور وہ کس قسم کی آزادیوں کو قبول کرتے ہیں اور کس قسم کی آزادیوں کو رد کرتے ہیں، ہماری تمام معلومات اور مطالعات کے مطابق ابہی تک یہ سوال بلا جواب ہے اور فلاسفہ حقوق کے پاس اس کا کوئی قطعی جواب نہیں ہے کہ آزادیوں کو کونسی چیز محدود کرتی ہے؟

5۔حقوق بشر میں آزادی کی اہمیت

حقوق بشر کے اعلان کی شرح کرنیوالوں اور فلاسفہ حقوق نے اپنی فلسفہ کی کتابوں میں آزادی کی حدبندی کے بارے میں مندرجہ ذیل چیزیں لکہی ہیں:

1۔جس چیز کو فردی آزادیوں کو محدود کرنے کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے وہ دوسروں کی آزادی ہے، یعنی ھر فرد وہاں تک آزاد ہے جہاں تک وہ دوسروں کا مزاحم نہ ہو اور دوسروں کے حقوق سے تجاوز نہ کرے، فلاسفہ حقوق نے اس موضوع کو بھت زیادہ اہمیت دی ہے اور اس کے بارے میں بھت زیادہ پافشاری کی ہے اور حقیقت میں حقوق بشر کے اعلان میں جو یورپ کے فلاسفہ حقوق کی انجیل کے مانند ہے اس چیز پر بھت زیادہ تاکید کی ہے کہ ھر انسان وہاں تک آزاد ہے جہاں تک وہ دوسروں کا مزاحم نہ ہوتا ہو، لیکن اگر فردی آزادی سے دوسروں کو زحمت ہوتی ہو وہ اس طرح کی آزادی سے محروم ہوگا اور یہیں پر آزادی محدود ہوجاتی ہے ۔

یہاں پر بھت سے سوال پیش آتے ہیں: پھلاسوال: تم دوسروں کی مزاحمت کرنے کو کن مقولوں سے تعبیر کرتے ہو؟ کیا یہ مزاحمت صرف امور مادی میں ہے یا امور معنوی کو بہی شامل ہوتی ہے؟ کیا لوگوں کے دینی مقدسات کی مخالفت کرنا ان کی آزادی کی مخالفت کرنا ہے یا نہیں؟ یورپی لیبرال کا نظریہ کھتا ہے کہ آزادیوں کی حدبندی معنوی ادوار کو شامل نہیں ہوتی اور امور معنوی کی مخالفت آزادی کو محدود نہیں کرتی۔

لھٰذا جب یہ کہا جاتا ہے کہ دین اسلام خدا وپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مقدسات اسلام کی اہانت کرنے والے کو مرتد سمجھتا ہے، مثال کے طور پر اسلام، سلمان رشدی کو مقدسات اسلام کی اہانت کرنے کی وجہ سے واجب القتل سمجھتا ہے تو وہ اس چیز کو تسلیم کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں اور کھتے ہیں کہ بیان آزاد ہے، وہ محقق ہے جو چاہے لکہ سکتا ہے، تم بہی جو چاہو وہ لکہو! تو ہمارا ان سے یہ سوال ہے کہ اس کتاب کے مطالب سے دوسروں کی مقدسات کی اہانت ہوتی ہے؟ تو حقیقت میں وہ یہ نہیں کھہ سکتے کہ توہین آمیز نہیں ہے ۔

کیا آزادی بیان اتنا وسیع ہے کہ ایک شخص دنیا کے اس کونہ سے ایک میلیارد سے زیادہ مسلمانوں کی مقدس شخصیت پیغمبر جنکو مسلمان اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتے ہیں اور اپنے ھزاروں عزیزوں کو آپ پر فدا کرنے کیلئے تیار ہیں ان کی شان میں گستاخی کرے؟ کیا اس کام کو آزادی بیان کہا جاتا ہے؟ اور یہ وہی مطلب ہے جس کو تمام لوگ درک کرتے ہیں؟ کونسی عقل، منطق استدلال اور شریعت اجازت دیتی ہے کہ ایک انسان دوسرے ایک میلیارد مسلمانوں کی مقدس شخصیت کی شان میں گستاخی کرے؟ اگر حقوق بشر کے اعلان میں آزادی بشر سے یہی چیز مراد ہے تو ہم بغیر کسی چون و چرا کے آرام کے ساتھ ایسے اعلان کو تسلیم نہیں کرتے ۔



back 1 2 3 4 5 6 next