قانون کے سلسلے میں غرب کی مادی نگاہ



نتیجتاً قانون ایسا ہونا چاہیے جو انسانی رشد کی مادی اور معنوی جھتوں میں ضمانت لے قانون کا صرف معاشرہ میں نظم برقرار کرنا ہی کافی نہیں ہے، مثال کے طور پر اگر دو افراد یہ طے کریں کہ وہ دوسروں کو کوئی نقصان پہونچانے اور معاشرہ کے نظم میں خلل ڈالے بغیر ایک دوسرے کو قتل کر ڈالیں گے تو کیا وہ یہ صحیح کام انجام دیں گے؟

اگر آپ حضرات کو یاد ہو تو کچھ دن پھلے امریکہ کے ایک شھر میں انسانوں کے ایک گروہ کو جلا دیا گیااور یہ اعلان کردیا گیا کہ یہ وہ افراد تہے جو اپنے رسم و رواج میں خودکشی کو کمال سمجھتے تہے! البتہ ذھن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ممکن ہے خود امریکا کی حکومت کے ممبران نے جب ان افراد کو اپنے نظام کے مخالف دیکہاہو، تو سب کو نیست و نابود کردیا ہو، فرض کر لیجئے کہ اس گروہ نے اپنے مذھبی عقیدہ کے مطابق اس فعل کو انجام دیا تو کیا ان کا ایسا کرنا صحیح ہے؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کسی کو کوئی اذیت نہیں دی اور خود ایک دوسرے سے موافقت کر کے ایک دوسرے کو قتل کردیا تو انہوں نے یہ صحیح کام انجام دیا ہے؟ کیا حکومت کو ایسے قانون کی اجازت دیدینی چاہیے؟ کیا قانون کو ایسی اجازت دیدینی چاہیے یا نہیں؟ اگر نظم اور امنیت کی رعایت کرنا ہی صرف ملاک ہے تو یہ نظم و امنیت تو کچھ افراد کے ایک ساتھ قتل کردینے سے بہی باقی رھتی ہے! اور قانون دوسرا کوئی اور وظیفہ نہیں رکھتا۔

لیبرل نظریہ میں حکومت کا وظیفہ صرف نظم وامن برقرار کرنا ہے اور قانون کا کام ھرج و مرج کو روکنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، اس طرز تفکر کا نتیجہ وہی چیز ہے جسکا یورپی ممالک میں مشاھد کیا جاتا ہے جیسے اخلاقی، جنسی، اور اجتماعی فساد وغیرہ یہ تمام مسائل ان کے اس قول کا نتیجہ نہیں کھ: حکومت کو افراد کے حقوق اور ان کی زندگی میں دخالت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور حکومت کو تو صرف نظم برقرار رکھنا چاہیے، حکومت کو تو صرف مسلح پولیس کی طرح اسکولوں میں رھنا چاہیے تاکہ بچے ایک دوسرے کو یا اپنے استادوں کو قتل نہ کردیں، وہاں پر برقراری ٴ نظم و امنیت اسی حد تک ہے کیا قانون کا وظیفہ صرف یہی ہے؟ یا دوسرے وظایف جسیے انسانوں کے اندر رشدونموکرنابہی قانون کی ذمہ داری ہے؟ اور کیا قانون کو اخلاقی برائیوں سے بہی روکنا چاہیے؟

جو کچھ ہم نے بیان کیا اس کا نتیجہ کھ: قانون کو مصالح معنوی کو بہی مد نظر رکھنا چاہیے، اس بنا پر جو کچھ انسانوں کے معنوی مصالح اور ان کی شخصیت، روح الٰہی، مقام خلیفہ الٰہی اور انسانیت کیلئے مزاحمت ایجاد کرتا ہے اور اسی طرح جو مصالح مادی اور انسانوں کی امنیت اور سلامتی کو ضرر پہونچاتا ہے وہ بہی ممنوع ہونا چاہیے، کیا اجتماع اسلئے نہیں ہوتا کہ انسان اپنی انسانیت کی وجہ سے رشد کرے اور صرف اپنے حیوانی مقاصد ہی نہیں بلکہ انسانی مقاصد کو بہی حاصل کرے؟ تو قانون مصالح مادی اور معنوی دونوں کا متکفل ہونا چاہیے، لھٰذا کسی کی حیثیت، کرامت اور لوگوں کی مذھبی مقدس گاہوں سے معارضہ کرنا یہ انسانوں کی روحی اور معنوی رشد ونموکو روکتا ہے یہ بہی ممنوع ہونا چاہیے، جس طرح سے مواد مخدر کا رائج کرنا یا زھریلی دوا کا انجکشن لگانا منع ہے اس لئے کہ وہ انسان کو بیمار کرتا ہے اور ھستی سے ساقط کردیتا ہے، اور اس کے مصالح مادی کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے ۔

اب اگر کوئی اس زھر کا عادی ہوجائے اور اسکے حیوانی افعال میں کوئی خلل ایجاد نہ ہو اور وہ ظاھراً صحیح و سالم ہو لیکن اس کا فہم و شعور ختم ہوگیا ہو تو کیا یہ اس کیلئے جائز ہو جائےگا؟اور اگر دوسری طرح کی آفتیں اور زھر اپنا کام کر جائے جو اس کی سلامت معنوی اور ایمان کے ختم ہوجانے کا باعث ہوجائے تو کیا ان امور کا انجام دینا ممنوع نہیںہے؟ کیا یہ انسان کی انسانیت کو ضرر پہونچانا نہیں ہے؟ اگر کچھ افراد معاشرہ میں ایسی شرطیں فراہم کریں جو لوگوں کو دینداری سے دور کریں تو ان کو آزاد ہونا چاہیے؟ قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے کھ:

(صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّہ وَ کُفْرٌ بِہ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ... ) (1.)

”اور (یہ بہی یاد رہے) کہ خداکی راہ سے روکنا اور خدا سے انکار او رمسجد حرام (کعبہ) سے روکنا(اس سے بڑہ کر گناہ ہے)“

جو چیز خداوندعالم کی راہ، ترقی اور انسانوں کے حقائق دین سے آشنا ہونے کے راستہ کو بند کردے اور دین کو جوانوں کے نزدیک مشتبہ جلوہ دینے کا باعث ہوتا ہے وہ منع ہے چونکہ وہ انسان کی انسانیت کو ضرر پہونچاتا ہے، کیسے جو چیز انسان کی حیوانیت کو لطمہ پہونچاتی ہے تو وہ ممنوع ہوتی ہے لیکن جو چیز انسان کی انسانیت کو ضرر پہونچائے وہ آزاد ہوتی ہے؟ دنیا کھتی ہے: ہاں، لیکن دین کھتا ہے کھ: نہیں، ہمار ا یہ عقیدہ ہے کہ معاشرہ میں اس قانون کا اجراٴ ہونا چاہیے جو انسانوں کی مصالح معنوی کی رعایت کرے اور مصالح معنوی کی رعایت کرنا مصالح مادی سے زیادہ اہم ہے ۔(قارئین کرام اس بات کا خیال رکہیں کہ جو کچھ ہم نے بیان کیا اس کا علمی بحث سے تعلق ہے اور ممکن ہے اس کا عینی مصداق نہ مل سکے لھٰذا اس کا مطلب یہ نہ سمجہ لیں کہ ہم نے اقتصاد کو بالائے طاق رکہ دیا ہے ۔)

8 ۔مصالح معنوی اور دینی کا مصالح مادی پر مقدم ہونا

اگر کوئی ایسا موقع آجائے کہ ہماری اقتصادی حالت تو اچہی ہوتی ہو لیکن ہمارے دین پر آنچ آتی ہو یا دینی حالت توسدھرتی ہو لیکن اقتصاد ی حالت پر آنچ آتی ہو تو ہم کو دونوں میں سے کونسی چیز انتخاب کرنی چاہیے؟ ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ اسلام کی پیشرفت اقتصادی پیشرفت کی بہی ضامن ہے، مگر ایک طولانی عرصے کے بعد، لیکن کبہی یہ امکان ہے کہ اقتصادی منافع کچھ تہوڑی مدت تک کیلئے ختم ہوجائیں اور افراد کیلئے کچھ تنگی کا باعث ہوجائے، اب اگر اس طرح کی وضعیت پیش آجائے تو بیان کئے گئے مقدمات اور استدلال کو مدنظر رکھتے ہوئے مصلحت دینی کو مقدم ہونا چاہیے یا دنیوی کو مقدم کرنا چاہیے؟ جیسا کہ نھج البلاغہ میں امام حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:



back 1 2 3 4 5 6 next