قانون کے سلسلے میں غرب کی مادی نگاہ



”فان عرض بلاء فقدم مالک دون نفسک فان تجاوز البلاء فقدم مالک و نفسک دون دینک .“(2 )

”اگر تمہاری جان خطرہ میں پڑ جائے تو تم اپنے مال کو اپنی جان پر فدا کردو اگر جان ومال کے درمیان خطرہ ہو تو مال کو قربان کردو لیکن اگر جان اور دین کے درمیان خطرہ ہے یعنی زندگی کفر کی حالت میں ہو اور ایمان کی حالت میں شہادت ہو تو پھر اپنی جان ومال کو دین پر قربان کردینا چاھئے، اس موقع پر اگر انسان قتل ہوجائے تو اس کا کوئی نقصان نہیں ہوگا“

کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

(قُلْ ھَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَا إِلاَّ إِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ.)(3)

”(اے رسول) تم منافقوں سے کھہ دو کہ تم تو ہمارے لئے (فتح یاشہادت)دو بھلائیوں میں سے ایک کے (خواہ مخواھ) منتظر ہی ہو“

جو شخص دین اسلام کی راہ میں قتل ہوجائے اس کا کیا نقصان ہوتا ہے؟ وہ سیدہا جنت میں جائےگا، لیکن بالفرض اگر کوئی شخص بے دین سو سال تک زندہ رہے تو دن بہ دن اسکے عذاب میں زیادتی ہونے کے علاوہ اس کا اور کیا فائدہ ہوگا؟، پس اسلامی نقطہٴ ٴ نظر سے مصالح دینی اورمعنوی مصالح مادی سے اہم ہیں،اس بنا پر قانون کو مصالح معنوی کی رعایت کے علاوہ مصالح معنوی کو اولویت بہی دینا چاہیے، ہماری بحث استدلالی ہے اور ہم اپنے استدلال کو کسی دوسرے پر نہیں چہوڑدیتے ہیں جو افرادتسلیم نہیں کرنا چاھتے وہ رد کر سکتے ہیں، ان استدلالوں کی بنیاد پر ہم نے کوئی غیر منطقی مطلب بیان نہیں کیا۔

۹۔اسلام اور لیبرالیزم کے مابین آزادی اور قید میں فرق

ساری دنیا کے تمام عقلا ٴ کے مانند ہماری نگاہ میں بہی آزادی محدود ہے، لیکن ان کے اور ہمارے مابین یہ فرق ہے کہ ان کے یہاں آزادی کے مقید ہونے کا یہ مطلب دوسروں کی آزادی سے تجاوز کرنا ہے اور ہمارے یہاں آزادی کے محدود ہونے کا مطلب مصالح اجتماعی کی ھر مصلحت سے تجاوز کرنا ہے، انسان اپنی زندگی میں آزاد ہےں وہ بات کریں، کہائیں، کام کریں، تجارت کریں، اقتصادی حالت درست کریں، بحث کریں، سفر کریں، قرارداد پر دستخظ کریں، بہ طور خلاصہ انکو ھر کام کرنے کی اجازت ہے لیکن کس حد تک؟ جہاں تک معاشرہ کے مادی اور معنوی مصالح تباہ وبرباد نہ ہوتے ہوں۔

جہاں آزادی مادی لحاظ سے معاشرہ کے مصالح کو نقصان پہونچانا شروع کردے وہ ممنوع ہے، اور اسی طرح جہاں پر آزادیوں سے استفادہ کرنا معاشرہ کی معنوی مصالح سے معارضہ کرجائے تو ایسی آزادیاں ممنوع ہیں مندرجہ بالا دونوں صورتوں میں آزادی سے استفادہ کرنا منع ہے یہ ہماری دلیل و منطق ہے، اور اگر کسی کے پاس ہم سے بھتر منطق ہے تو ہم اس کو سننے اور اس سے استفادہ کرنے کیلئے تیار ہیں، فلسفہٴ حقوق کے استادوں سے میری گذارش ہے کہ وہ زیادہ دقت سے کام لیں۔

جہاں تک ہم کو اطلاع ہے آج تک حقوق اور سیاست کے فلاسفہ نے اس سوال کا کوئی قطعی اور منطقی جواب نہیں دیا کہ آزادی کی حد بندی کیا ہے؟ اگر ہمارے اساسی قانون یا عادی قوانین یا بزرگان عالم کے کلمات میں یہاں تک کہ اگر امام خمینی(رہ) قدس سرہ کے کلمات میںاس سے مشابہ کوئی تعبیر موجود ہو تو اسکی تفسیر کی خاطر اسکے اھل سے رجوع کرنا چاہیے، ہم بہی قانون کے جاری ہونے کے طرفدار ہیں اسلامی ملک میں قوانین کی بہ نسبت ہماری ذمہ داری دوسروں سے کہیں زیادہ ہے ۔

لیکن ہمارا دوسروں سے یہ فرق ہے کہ ہم قانون کو اس لئے معتبر سمجھتے ہیں کہ ولی فقیہ نے ان پر دستخط کر دئیے ہیں، اور چونکہ امام خمینی(رہ) قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ ”اسلامی حکومت کی اطاعت کرنا واجب ہے“ کچھ افراد کھتے ہیں کہ: چونکہ لوگوں نے اپنے ووٹ بہی دیئے ہیں، اب کونسی منطق قوی ہے؟ کسکا اثر زیادہ ہے؟جب کسی شخص سے کہا جائے چونکہ لوگوں نے ووٹ دئے ہیں، اس لئے اس قانون پر عمل کرنا واجب ہے؟ممکن ہے وہ شخص یہ جواب دے کہ میں نے اس نمائندے کو ووٹ ہی نہیں دیا ہے، یا میں اس قانون سے راضی ہی نہیں ہوں!

لیکن امام خمینی(رہ) قدس سرہ نے فرمایادیا ہے کہ : اگر اسلامی حکومت کوئی حکم صادر کرے اور مجلس شورائے اسلامی کسی حکم کو تصویب کر دے تو وظیفہٴ شرعی کے عنوان سے اس کی اطاعت کرنا چاہیے؟ اس وقت دیکہیں کیا چیز وقوع پذیر ہوتی ہے، اب ہم قانون کے پابند ہیں یا وھ.؟ یہاں تک کہ اگر کسی اساسی (بنیادی) قانون میں بہی کوئی ابہام پایا جاتا ہو تو اسکی تفسیر کی خاطر کسی صلاحیت دار مرجع کی طرف رجوع کرنا چاہیے کسی اور کی طرف نہیں۔

پس نتیجہ یہ نکلاکھ: تمام ملتوں اور تمام عقلا ء کے درمیان آزادی محدود ہے، لیکن اسلامی نقطہ ٴ نظر سے معاشرہ کی مصالح مادی اور معنوی اسکی حد ہیں، تمام انسان وہاں تک آزادہیں جہاں تک معاشرہ کے مادی اور معنوی مصالح کو کوئی نقصان نہ پہونچتا ہو۔

حوالہ

.1سورہ بقرہ 217

.2شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید ج8 ص250

.3سورہ توبہ 52

 



back 1 2 3 4 5 6