قانون کے سلسلے میں غرب کی مادی نگاہ



6۔یورپ میں آزادی کی حدبندی پر اعتراضات

جو افراد اس اعلان کو معتبر سمجھتے ہیں اور اس کا انجیل کی حد تک احترام کرتے ہیں ان سے ہمارا بنیادی سوال یہ ہے کہ اعلان کیسے معتبر ہوتا ہے؟ کیا تمہارے پاس کوئی عقلی دلیل ہے؟ اس صورت میں تم کو اس پر عقل سے بہی استدلال کرنا چاہیے، بڑے آرام سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ”آزادی قانون سے بلند درجہ رکھتی ہے اور اس کو محدود نہیں کیا جا سکتا ہے“ اگر تم یہ کھتے ہو کہ اس کا اعتبار اس وجہ سے ہے کہ ممالک کے نمائندوں نے اس اعلان پر دستخط کر دئیے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اعتبار دستخط کا تابع ہے، اب جن ممالک نے اس اعلان پر دستخط نہیں کئے ہیں یا کسی شرط کے ماتحت دستخط کئے ہیں ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا وہ بہی بغیر کسی چون وچرا کے اس کی اتباع کر سکتے ہیں؟

ھر معاشرہ ثقافت، مقدس چیزیں اور خاص احکام رکھتا ہے اور اسی حقوق بشر کے اعلان کے ایک حصہ میں آیا ہے کہ ھر شخص اپنا مذھب منتخب کرنے میں آزاد ہے اور جب انسان کسی مذھب کا انتخاب کرلیتا ہے تو اس کو اسکے احکام پر عمل کرنا چاہیے کسی مذھب کے منتخب کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ صرف زبان پر جاری کر لیا جائے بلکہ انسان کو عمل کرنے میں بہی آزادانہ طور پر اپنے مذھب پر عمل کرناچاھئے ۔

اب ہم نے بہی اسلام کو آزادانہ طور پر منتخب کیا ہے، اسلام کا بہی فرمان ہے کہ جو شخص بہی اولیاٴ اسلام کی اہانت کرے گا اسکی سزا موت ہے، یورپی ثقافت کھتی ہے کہ اسلام کا یہ حکم حقوق بشر کے خلاف ہے انسانوں کے طبیعی حقوق کے بر خلاف ہے، اس لئے ھر انسان اپنی طبیعت کے اقتضاٴ کے مطابق جو کچھ چاہے کھنے کا حق رکھتا ہے! نتیجہ کے طور پر حقوق بشر کے اعلان میں جو یہ دو مطلب آئے ہیں یہ ایک دوسرے کے معارض ہیں۔

ہم اپنی پھلی بحث کی طرف پلٹتے ہیں کہ ھر شخص جو چاہے وہ کھنے کا حق رکھتا ہے اس مطلب پر کونسی دلیل ہے؟ تو تم اپنے ملک میں ھر شخص کو جو کچھ وہ کھنا چاہے اسکی اجازت کیوں نہیں دیتے ہو؟ اگر کوئی شخص تہمت لگاتا ہے تو عدالت میں اسکی کیوں شکایت کرتے ہو، اور جب وہ یہ کھتا ہے کہ ”آزادی بیان“ ہے اور جو میں نے چاہا وہ کہا ہے تو کس دلیل کی بنا پر اس سے یہ کھتے ہو کہ اس طرح کی باتیں مت کرو؟ معلوم ہوتا ہے کہ مطلق آزادی بیان نہیں ہے اور بعض مطالب کو بیان نہیں کرنا چاہیے، اس مطلب کو دنیا کے تمام انسان تسلیم کرتے ہیں کہ مطلق آزادی نہیں ہے ورنہ انسانیت اور معاشرہ باقی نہ رھتا جس میں کوئی قانون حاکم اور حقوق کی رعایت ہوتی۔

نتیجہ کے طور پر کوئی شخص مطلق آزادی کو تسلیم نہیں کرتا، لیکن سوال یہ ہے کہ اسکی حد کہاں تک ہے؟ آزادی بیان کو نمونہ کے طور پر بیان کیا گیا اور ہم نے عرض کیا کہ آزادی کو لامحدود نہیں کھہ سکتے اور ایسا کسی شخص نے بہی نہیں کہا ہے اور عملی طور پر کوئی مملکت اس بات کو تسلیم نہیں کرسکتی کہ ھر انسان کا جو دل چاہے وہ بیان کرے اور لکہے اگرچہ وہ تہمت و افتراٴ ہی کیوں نہ ہو اور دوسرے لوگوں کی گمراہی کا سبب ہو، قومی امنیت کے برخلاف ہو۔

اگر گفتگو کرنا آزاد ہے تو ہم بہی گفتگو کرتے ہیں، اگر وہ ہم کو اجازت دیں تو ہم بہی ان سے ایک سوال کرتے ہیں، اور حقوق بشر کا اعلان لکھنے والوں کی خدمت میں مودبانہ زانوئے ادب تھہ کریں اور ان کے سامنے اپنا سوال بیان کریں، ہمارا ان سے سوال یہ ہے کہ کس دلیل کی بنیاد پر انسان آزاد ہے کہ وہ جو چاہے کہے؟ اگر آزادی مطلق ہے تو تم خود کیوں تسلیم نہیں کرتے ہو؟ تہمت لگانے اور افتراٴ باندھنے اور اہانت کرنے کو کیا تم خود بہی تسلیم کرتے ہو کہ آزادی مطلق ہے؟

نتیجتاً تم نے یہ تسلیم کرلیا کہ آزادی محدود ہے، لیکن وہ کہاں تک محدود ہے؟ جہاں تک تمہارا دل چاہے وہاں تک محدود ہے؟جب تم یہ کھتے ہو کہ دوسروں کی آزادی کا مزاحم نہیں ہونا چاہیے تو ہمارا تم سے سوال یہ ہے کہ تم دوسروں کی آزادی کو کس حد تک معتبر سمجھتے ہو؟ کیا آزادی کی حد بندی یہ ہے کہ جہاں تک دوسروں کا جانی مالی اور ان کی حیثیت کا نقصان نہ ہوتا ہو؟ کیاو روح، حیات معنوی، افکار اور ان کی مقدس آرزوں پر صدمات وارد ہوتے ہیں وہ ممنوع ہیں یا نہیں؟ اگر ممنوع ہیں تو ہمارا بہی یہی نظریہ ہے، ہم بہی یہی کھتے ہیں کہ آزادی بیان حدبندی رکھتی ہے، مقدس چیزوں کی اہانت نہیں کرنا چاہیے چوں کہ یہ دوسروں کے حق سے تجاوز کرنا ہے ۔

7۔مادی اور معنوی مصالح پر قانون اسلام کی توجہ

اب اس بحث کو برقرار رکھنے میں یہ سوال پیش آتا ہے کہ اسلامی نقطہٴ ٴ نظر سے آزادی کی اساس و بنیاد کیا ہے اور اس کی حد بندی کیا ہے؟ قانون کیلئے پھلے بیان کی گئی خصوصیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے معاشرہ میں اجتماعی زندگی کے اھداف و مقاصد اور مادی و معنوی مصالح کی ضرورت کو پورا کرنے کی خاطر قانون کا موجود ہونا ضروری ہے، اگر اجتماعی زندگی نہ ہو تو افراد کے مادی اور معنوی مصالح پورے نہیں ہوسکیں گے، اجتماعی زندگی کے ماتحت انسان اس چیز کا منتظر رھتا ہے کہ وہ خدا دادی نعمتیں جیسے علوم، ٹیکنالوجی اور صنعتوں سے بہی اور معارف و کمالات روحی کے بلند پایہ کے استادوں سے بہی کما حقہ استفادہ کرےگا، ان معارف و علوم کا صرف اجتماعی زندگی میں ہی حاصل کرنا میسر ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 next