انسانیت میں اصل وحدت کی تحقیق اور شہریوں کی اتباع



اصولی طور پر ریشہ حق کیا ہے ؟ یعنی کس طرح کوئی صاحب حق بنتا ہے، یہ جو کھا جاتا ہے کہ فلاں شخص حق رکھتا ہے یا نہیں رکھتا یہ حق کھاں سے پیدا ہوتا ہے ؟ ہم کس بنیاد پر کھتے ہیں کہ کوئی شخص فلاں کام کو انجام دینے کا حق رکھتا ہے یا نہیں رکھتا ؟

 

1۔ اسلامی نقطہ نظر سے کسی کا صاحب حق ہونا

فلسفہ سیاست کی بحثوں میں فلسفہ حقوق بھت قریب ہے اور دونوں میں مشترک یا مشابہ مسائل بیان کئے جاتے ہیں مثال کے طور پر سیاست کی بحث میں حقوقی مسائل کی تحقیق کی جاتی ہے اسی بنیاد پر ہم نے فلسفھٴ حقوق(یعنی انسانوں کا انسانیت کے اعتبار سے اہم ہونا) کی بحث میں اس سے پھلے والے جلسہ میں اشارہ کیا تھا اور یہ بہی بیان کیا تھا کہ اگرچہ تمام انسان انسانیت میں مشترک ہیں اور اسلام کی نظر میں انسانوں کے ما بین پھلے طبقہ اور دوسرے طبقہ کے انسان نہیں ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اجتماعی مسائل میں تمام انسان حقوق اور تکالیف کے اعتبار سے مساوی ہیں، اس بارے میں جو افراد مکمل طور پر ان مسائل سے آگاہ نہیں ہیں یا ان کے ذریعہ سوء استفادہ کرتے ہیںتاکہ اسلام اور انقلاب کے مخالف نظریات رکھتے ہوئے بہی اپنے کو مسلمان او رانقلابیوں کی فہرست میں کھڑا کرسکیں اور اس کی وجہ سے انقلاب سے فائدہ اٹھاسکو،اور صرف یہی نہیں بلکہ انقلاب کے خلاف مطالب تلاش کرسکیں انہوں نے اس بارے میں مغالطہ کیا ہے کیونکہ معاشرہ میں پھلے طبقہ اور دوسرے طبقہ کے انسان نہیں ہیں لھٰذا تمام افراد کے حقوق برابر ہونا چاہیئے جیسے گروہ بنانے کے لئے اقدام کرنا اور ملک ملت میں کسی بلند عھدے کا پانا . ان کے نظریہ کے مطابق ہر شخص چاہے وہ کسی بہی عقیدہ کا تابع ہی کیوں نہ ہو وہ صدر مملکت یا وزیر اعظم ہوسکتا ہے اور کوئی بہی پارٹی بنا سکتا ہے۔

چونکہ ان کا استدلال یہ ہے کہ جب انسانوں کے مابین پھلا طبقہ اور دوسرا طبقہ نہیں ہے اور تمام انسان برابر ہیں اور ہم جو انقلاب اسلامی اور قانون اساسی کو تسلیم نہیں کرتے ہیں تو ہم کو یہ حق ہے کہ تمام حقوق میں برابر حصہ ملے اس مغالطہ کے بارے میں یہ عرض کردیا گیا ہے کہ صحیح ہے کہ انسانوں میں پھلا طبقہ اور دوسرا طبقہ نہیں ہے، یہ بات اپنی جگہ ٹہیک ہے لیکن تمام حقوق و وظائف اصل انسانیت میں سب کے درمیان مشترک نہیں ہیں بلکہ بعض حقوق و وظائف میں اصل انسان کے علاوہ دوسری خاصیتں ہوتی ہیں، بہر حال کچھ افراد نے اس مطلب کو درست نہیں سمجھا یا اپنی کسی غرض کی وجہ سے اس مطلب کی غلط تفسیر کی ،اور کھا کہ فلاں صاحب کھتے ہےںکہ ہم شہریوں کے مابین پھلا طبقہ اور دوسرا طبقہ موجود ہے اور شہریوں کے پھلے طبقہ سے مراد روحانیت ہے اور بقیہ دوسرے شہری دوسرے طبقہ میں شمار کئے جاتے ہیں۔

حقیر اس شبہ کے لئے اس وقت کے جلسہ کو مخصوص کرتا ہے،قارئین کرام اس موضوع کے واضح ہونے کے لئے جو بحث حقوق عالم کے فلسفیوں کے مابین بیان ہوتی ہے اور اس کے مختلف جواب دیئے گئے ہیں اس کی طرف توجہ دیجئے وہ بحث یہ ہے کہ. اصولی طور پر ریشہ حق کیا ہے ؟ یعنی کس طرح کوئی صاحب حق بنتا ہے، یہ جو کھا جاتا ہے کہ فلاں شخص حق رکھتا ہے یا نہیں رکھتا یہ حق کھاں سے پیدا ہوتا ہے ؟ ہم کس بنیاد پر کھتے ہیں کہ کوئی شخص فلاں کام کو انجام دینے کا حق رکھتا ہے یا نہیں رکھتا ؟ فلسفہ حقوق کے مختلف، جیسے مکاتب حقوق تاریخی، پوزیتویزم حقوق طبعی اور دوسرے حقوقی مکاتب ہر ایک نے اس کے مختلف جوابات دئے ہیں .

اسلام کا اس بارے میں خاص نظریہ ہے یعنی اسلام کی نگاہ میں تمام حقوق در اصل خدا وند عالم کی طرف بازگشت ہوتی ہے. چونکہ ھستی اسی کے کرم سے ہے اور ہر شخص کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے . اور تکوینی میں ہمارا وجود اور کچھ ہمارے پاس ہے وہ خدا کے لئے ہے (انَّا لِلّٰہ )اور تمام چیزیں (مِنَ اللّٰہ ) ہیں اسی طرح تشریعی امور بہی خدا کی طرف سے مستند ہونے چاھئیں . حقوق کے پیدا ہونے کے بارے میں یہ ہمارا کلی نظریہ تھا جس کو ہم نے مختصر طور پر بیان کیا ہے کھ. خدا وندہ عالم تمام انسانوں کو مساوی حقوق عطا کرتا ہے ؟ یا بعض بندوں کو خاص حق عطا کرتا ہے کہ دوسروں کو وہ حق نہیں دیتا ؟ مختصر طور پر ہم یہ جانتے ہیں کہ خدا وند عالم نے انبیاء کو جو حقوق عطا کیئے ہیں وہ دوسروں کو عطا نہیں کیئے ہیں اس نے ماں باپ کو کچھ حقوق عطا کیئے ہیں اور اولاد کو دوسرے حقوق دیئے ہیں۔

لیکن کیا (معاذاللہ ) خدا وند عالم کا قانون بغیر حساب وکتاب کے ہے یعنی خداوند عالم بغیر کسی معیار و ملاک کے کسی کو کوئی حق دیتا ہے اور دوسرے کو وہ حق عطا نہیں کرتا ہے یا اس کی نظر میں کوئی خاص ملاک و معیار پایا جاتا ہے ؟ اور اگر کوئی ملاک و معیار ہے تو کونسا ملاک ہے ؟ تو جن حقوق کو خداوندعالم اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے وہ ان خاص وظائف کی وجہ سے ہے جن کو وہ انجام دیتے ہیں .ہم کو خداوند عالم نے اس لئے پیدا کیاہے تاکہ ہم اپنے ارادہ و اختیار سے کمال حقیقی اور سعادت ابدی کی طرف حرکت کریں، لھٰذا ہم پر ایک کلی فریضہ عائد کیا گیاہے جسکو اسلامی ثقافت میں خدا کی عبادت سے کھاجاتاہے اور خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے:

(اٴَلَمْ عَھدَ إِلَیْکُمْ یَا بَنِیْ آدَمَ اٴَنْ لَا تَعْبُدُوْا الشَّیْطَانَ إِنَّہ لَکُمْ عَدُوٌّ مُبِیْنٌ وَاٴَنِ اعْبُدُوْنِی ھذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِیْمٌ.)(1)

”اے آدم کی اولاد کیا میں نے تمھارے پاس یہ حکم نہیں بہیجا تھا کہ (خبردار) شیطان کی پرستش نہ کرنا وہ تمھارا کھلم کھلا دشمن ہے. اور یہ کہ دیکہو صرف میری عبادت کرنا یہی (نجات کی) سیدہی راہ ہے “



1 2 3 4 5 6 next