انسانیت میں اصل وحدت کی تحقیق اور شہریوں کی اتباع



جو افراد زندگی بسر کرنے کی خاطر خاص شرطوںکو حاصل کرتے ہیں فرض کرلیئجے جو شخص علم دین حاصل کرتا ہے وہ اپنے اندار اتنی صلاحیت پیدا کرلیتا ہے، معاشرہ میں کسی عھدہ کو سنبھال سکے لیکن جاھل شخص اس عھدہ کو نہیں سنبھال سکتا. یا وہ افراد جو کسی فن میں مھارت حاصل کرلیتے ہیں وہ لوگ اس لحاظ سے کہ انسان کے حقوق مساوی ہیں ان کا زحمت نہ اٹھانے والے افراد اور جنہوں نے کسی فن میں کوئی مھارت حاصل نہیں کی ان سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ہے.

اگر کوئی درس پڑہ کر اور زحمت اٹھاکر پائیلیٹ بن جائے تو اس کے مقابل میں اگر کوئی درس نہ پڑھنے والا. زحمت نہ اٹھانے والا اور اس فن میں مھارت نہ رکھنے والا یہ ادعا کرے کہ میں بہی پائیلیٹ بننا چاھتا ہوں تو اس کا یہ دعوی قابل قبول نہیں ہوگا بیشک تمام افراد اس کو یہی کہیں گے کہ اگر تم پائیلیٹ بننا چاھتے ہو تو پھلے علم حاصل کرو.

اسی طرح اگر جاھل اور مسائل سیا سی سے نا واقف شحص یہ کہے کہ میں بہی وزیر اعظم ہونے کا حق رکھتا ہوں تو اس سے یہی کہیں گے کھ:وزیر اعظم بننے کی کچھ شرطیں ہوتی ہیں تم ان شرطوں کو حاصل کرلیتے اور تمھارے اندر ذاتی توانائی ہوتی تو تم بہی کنڈیڈیٹ ہوسکتے تہے اور لوگووں کے ووٹ حاصل کرکے منتخب ہوسکتے تہے . لھٰذا وہ یہ نہیں کھہ سکتا کہ چونکہ انسانوں کے مابین پھلا اور دوسرا درجہ نہیں ہے لھٰذا میں بہی وزیر اعظم ہونے کا حق رکھتا ہوں. ایسا نہیں ہے کہ ہر انسان خواہ وہ ملت کی راہ کے خلاف ہی کیوں نہ چل رھا ہو ، اورملک کے اساسی و بنیادی قانون کو قبول نہ کرتا ہو یہ کہے :

چونکہ میںبہی انسان ہوں لھٰذا وزیر اعظم ہونا چاھتا ہوں؟ لھٰذا صرف اس وجہ سے کہ تم انسان ہو، تم کو ملک کی کوئی پوسٹ دے دی جائے کیونکہ ہر پوسٹ کے لئے کچھ نہ کچھ شرطیں ہوتی ہیں. مثال کے طور پر اسلامی ملک میں وزیر اعظم مسلمان ہونا چاھئے، ایک غیر مسلمان شخص ( درحالیکہ ہم اس کے احترام کے قائل ہیں اور قانون اساسی بہی اس کے لئے حق کا قائل ہوا ہے ) وزیر اعظم نہیں بن سکتا.

 

3۔ افراد کے لئے شہریت کے قوانین میں مختلف درجات کا معین ہونا

پوری دنیا میں خاص منصب کے لئے خاص شرطیں رکہی گئی ہیں منجملہ جن امور میں خاص شرطیں رکہی گئیں ہیں ان میں سے ایک نیشنلٹی کا مسئلہ ہے اور عالمی حقوق میں یہ بات مسلم ہے کہ نیشنلٹی یکساں او ربرابر نہیں ہے اور خصوصی حقوق بین الملل سے مختصر سی آشنائی رکھنے والا انسان بہی اس مطلب کو درک کرتا ہے. فرض کرلیجئے اگر ایک ایرانی شخص کسی یورپی ملک یا امریکا کے کسی ملک میں رھنا چاھتاہے پھلے تو اس کے وھاں پر رھنے کے لئے اس میں کچھ شرطوں کا ہونا ضروری ہے اگر اتفاقاً اس کو نیشنلٹی دے بہی دی جائے تو اس کووزیر اعظم ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی. کیوں کہ وہ درجہ دوم کا شہری ہے ممکن ہے وہ ایک طولانی مدت تک اپنے تمام امتحانوں میں کامیاب رھا ہو، اور درجہ دوم کی نیشنلٹی سے درجہ اول کی شہریت میں آجاے۔

بہر حال اگر کوئی شخص جس ملک کی شہریت رکھتا ہو ایسا نہیں ہے کہ وہ تمام حقوق جو اس ملک کے باشندے رکھتے ہیں اس شخص کو بہی وہی حقوق دیدے جائیں. چونکہ شہریت میں فرق ہے اور کئی درجہ رکھتی ہے ، اگر ہم مان لیں کہ انسانیت کے درجات نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شہریت بہی درجے نہیں رکھتی، . ہر ملک اپنے باشندوں کے لئے خاص شرطوں کا قائل ہے اسلام میں بہی خاص شرطیں ہیں صرف یہ کہ تمام انسان انسانیت میں شریک ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شہریت میں بہی سب برابر ہیں .

لھٰذا نتیجہ یہ نکلاکہ ہر ملک کے افراد اس ملک کے باشندے شمار کئے جاتے ہیں وہ بہی منصب اور مقام کے لحاظ سے ایک نہیں ہیں اور ان کے حقوق بہی جدا جدا ہیں . لیکن کونسا معیار و ملاک ان کے حقوق معین کرتا ہے اس کے مختلف جواب دیئے گئے ہیں ،حقیر کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ تمام اذن الٰہی کی طرف پلٹتے ہیں جو لوگ لیبرال (آزادی خواھ) ممالک یا ڈیمو کریٹ (جمہوری) ممالک میں زندگی بسر کرتے ہیں وہ قوانین کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے ہیں اور یہ کھتے ہیں کہ ہم کو لوگوں کی رائے کا تابع ہونا چاھئے. لیکن ہم یہ کھتے ہیں کھ: لوگوں کی رائے کے علاوہ خدا کی اجازت بہی ہونا چاھئے، ایسا نہ ہو کہ ہماری رائے اورخواھش خدا کے قانون کے خلاف نہیں ہوں.

بہرحال کوئی بہی ملک تمام افراد کے لئے مساوی شہریت کا قائل نہیں ہے اور چونکہ انسانیت میں درجہ نہیں ہے لھٰذا شہریت بہی درجات نہیں رکھتی اس کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا، ہمارے اساسی اور بنیادی قوانین میں بہی اس مسئلہ کو بیان کیا گیا ہے، اور ہمیں تعجب ہوتا ہے ان لوگوں پر جو قانون اساسی کے اس بند پر توجہ نہیں کرتے ،قانون اساسی کا بند یہ کھتا ہے:



back 1 2 3 4 5 6 next