انسانیت میں اصل وحدت کی تحقیق اور شہریوں کی اتباع



(الف)۔اختلافات طبیعی اور جبری

میں فرق انسانوں کے مابین سب سے زیادہ اختلافات طبعی اختلافات ہیں. جیسے جنسی فرق مفہوم زیست شناسی کے عنوان سے (منطقی مفہوم کے اعتبار سے نہیں) جو مرد اور عورت کے مابین پایا جاتا ہے . ان دونوں کے مابین فیزیولوجی(علم اعضا ) اور بائی لوجی (علم حیات) روانی اور عاطفی مسائل میں اختلافات پائے جاتے ہیں . انہیں اختلافات کی وجہ سے ان کے مابین وظائف اور حقوق کے لحاظ سے فرق رکھا جاتا ہے یعنی یہ صحیح ہے کہ عورت بہی انسان ہے اور مرد بہی انسان ہے اور دونوں ایک ہی درجہ میں ہیں اور انسانیت میں دو درجہ نہیں ہوتے ہیں لیکن عورت کے جسم میں خاص بناوٹ کے ساتھ ساتھ روحانی بناوٹوں کی وجہ سے اس کے ذمہ خاص وظائف عائد کیے گئے ہیں، عورت جو کردار بچے کی ولادت اور اس کو دودہ پلانے میں ادا کرتی ہے مرد کبہی اس ذمہ داری کو وفا نہیں کرسکتا. اور اس بارے میں ان دونوں کو ایک نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا .چونکہ یہ مسئلہ عورت اور مرد کے طبعی (فطری ) اختلاف سے مربوط ہے اور اسی وجہ سے خاص وظائف اس کے ذمہ عائد کئے گئے ہیں . اب جب عورت اپنی ذاتی اور طبیعی خصوصیات کی وجہ سے اس چیز کی پابندہے جیسے بچے کو نو مہینے تک اپنے پیٹ میں رکہے، اور اس کے بعد دوسال تک بچہ کو دودہ پلانے کی ذمہ داری اور پرورش اس کے ذمہ ہے انہیں سب امور کی وجہ سے اس کے لئے خاص حقوق نظر میں رکہے گئے ہیں .

اگر یہ طے ہو کہ عورت اپنی طبیعی اور ذاتی خاصیتوں کی وجہ سے بچہ دار ہواس کے بعد میں بچہ کو دودہ پلاکر اس کو بڑا کرے اور اسی حالت میں بالکل مردوں کی طرح کام کرے اور ا پنی زندگی کے خرچ فراہم کرے، تو یہ اس کی اصلی ذمہ داری نہ ہوگی بلکہ اس پر ظلم ہوگا بچہ دار ہونے اور بچہ کو غذا دینے جیسی مشکل ذمہ داریوںکا تقاضا یہ ہے کہ اس کے خاص حقوق ہونے چاھئیں یعنی مرد کا وظیفہ ہے کہ وہ عورت کا خرچ پورا کرے، اگر یہ طے ہو کہ عورت خود کام کرے تو بھت سے کام ایسے ہونگے جن سے بچہ ساقط ہوجائگا یا بھت سے کام ایسے ہوں گے کہ وہ بچہ کو وقت پر دودہ نہیں پلاسکے گی عاطفی نقطہ نظر سے بہی اگر عورت چین وسکون نہ رکھتی ہو اور اپنی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی فکر میں ہے تو یہ اضطراب و بے چینی بہی بچہ میں اثر انداز ہوتی ہے ۔

علمی اعتبار سے یہ ثابت ہوا ہے کہ عورت کو جتنا بہی روحی آرام ہوگا وہ اسی لحاظ سے بچہ کی تربیت کرے گی. اسی وجہ سے اسلام میں عورت کے لئے خاص حقوق رکہے گئے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بیوی کا خرچ شوہر کے ذمہ ہے، یھاں تک کہ عورت بچہ کو دودہ پلانے کی اجرت اپنے شوہر سے لے سکتی ہے یعنی یہ اجرت ان زحمتوں کی ہوتی ہے جو بچہ کو دودہ پلانے میں اٹھاتی ہے، اسی وجہ سے گہر میں اس کوخاص اہمیت ہونی چاھئےے۔

لھٰذا مرد وعورت کے مابین حقوق اور وظائف کے اعتبار سے یہ تصور کرنا دونوں انسان ہیں، لھٰذا ان کے حقوق اور ذمہ داریاں بہی ایک ہی طرح کی ہوں، یہ غلط ہے. ھاں دونوں انسانیت میں شریک ہیں لیکن عورت اور مرد ہونے میں شریک نہیں ہیں مرد اپنی خاص خصوصیات کا حامل ہے اور عورت اپنی خصوصیات کی متحمل ہے یہی خاص خصوصیات وظائف اور حق میں اختلاف کا سبب ہیں .

اس وجہ سے انسانو ں کے درمیان کچھ اختلافات طبعی اور جبری طور پر پیدا ہوتے ہیں . یعنی کوئی شخص بہی اپنے لئے عورت ہونے کو منتخب نہیں کرتا اور اسی طرح کوئی عورت اپنے کو مرد ہونا منتخب نہیں کرتی ہے یہ مسئلہ تو ارادہ الٰہی سے مربوط ہے ،خدا فرماتا ہے:

( یَھَبُ لِمَنْ یَشَاءُ إِنَاثاً وَ یَھَبُ لِمَنْ یَشَاءُ الذُّکُوْرَ.)(3)

”اور جسے چاھتاہے (فقط) بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاھتاہے (محض) بیٹے عطا کرتاہے “ نتیجہ یہ نکلا کہ افراد کا ارادہ واختیار اپنی اور اپنی اولاد کی نسیت معین کرنے میں دخالت نہیں رکھتا لیکن جب کسی کو جنسیت کے لحاظ سے مرد یا عورت بنادیا گیا تواس کے ذمہ خاص تکلیفیں قرار دیدی گئیں جن کا انجام دینا اختیاری ہے اور اس کے کچھ حقوق بہی ہوں گے جن کو وہ وفا کرسکتا ہو . لھٰذا اس طرح کے اختلافات کو اختلافات طبیعی کھا جاتا ہے۔

 

(ب)انسانوں کے مابین دوسرا اختلاف اختیاری ہے



back 1 2 3 4 5 6 next