انسانیت میں اصل وحدت کی تحقیق اور شہریوں کی اتباع



جو افراد ہمیشہ جمہوریت کا دم بہرتے ہیں او راپنی حکومت کو ولایت فقیہ کی بنیاد پر اچھا نہیں سمجھتے انہوں نے اس ملک کے لئے ولایت فقیہ کی خدمات کی طرف توجہ نہیں دی ہے، اوروہ یہ بہی توجہ نہیں کرتے کہ ولایت فقیہ کے نظریہ کی بنیاد پر اسلامی حکومت کے احکام وقوانین اور اسلامی پارلیمینٹ کے وضع کئے ہوئے قوانین کی شورای نگھبان کی تائید کے بعد اطاعت کرنا واجب ہے، چونکہ وہ ولی فقیہ کی اجازت سے اس مرحلہ تک پہونچے ہیں، اور ان کا اذن خدا کا اذن ہے، اس نظام کا ایک بڑا امتیازیہی ہے، لیکن اگر ہم ولایت فقیہ کو تسلیم نہ کریں توکم از کم وجوب عرفی کی بناپر قوانین کی اتباع کرنا ہوگی، جو لوگ اپنی خواھش کے قانون کو رائے دے چکے ہیں،ورنہ خود اپنے ہی عھد پر وفادار نہیں ہوں گے،اور اگر دل چاہے تو اس عھد سے لوٹ جائیں اور اپنی درخواست پر تجدید نظر کریں اور اپنی خواھش کے مطابق قانون میں تغیر وتبدیلی کرسکتے ہیں، جمہوری حکومت میں لوگوں پر قوانین کی اطاعت کرنا کوئی واجب نہیں ہے۔

اسلامی حکومت میں ولی فقیہ کی اجازت اور دستخط سے قانون معتبر جانے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ لوگوں کے خود لازم کردہ اور وجوب عرفی کی بناپر ان کے لئے لازم ہوتے ہیں اور وجوب شرعی بہی رکھتے ہیں اور ان کی مخالفت کرنا گناہ اور سزا کا باعث بہی ہوتا ہے۔

اسلامی حکومت کے قوانین کی اتباع کرنے اور جو قوانین اکثر لوگوں کی رائے کا نتیجہ ہوتے ہیں ان کی اتباع کرنے میں کتنا فرق ہے اورچونکہ نمائندہ مجلس کو اکثر لوگوں نے اپنے ووٹ دے کر منتخب کیا اور خود اس کی اتباع کرنے کو لازم قرار دیا ہے اب جن افراد نے اس قانون کی ووٹ نہیں دئے یا وہ اقلیت جنہوں نے اس نمائندہ مجلس کو ووٹ نہیں دئے ان افراد کو اس قانون کی کسی حدتک اتباع کرنا چاھئے؟ جو قانون اکثر افراد کی رائے سے بنایا گیاہو تو کیا نفسیاتی، عاطفی اور قلبی اعتبار سے اس قانون کے مخالف افراد پر بہی اس قانون کی اتباع کرنا لازم ہے؟ اور کس طرح قلبی طور پر بہی وہ اکثر لوگوں کی خواھش کی مطابق ملتزم ہوں؟

جو قوانین اسلامی حکومت کے ذریعہ نمائندگان مجلس کے توسط سے بنائے جاتے ہیں، اور ولی فقیہ نے بہی ان کی تائید فرمادی وہ خداوندعالم کی طرف سے واجب ہوگئے اور ان کی اطاعت کرنا واجب ہے، او رجن افراد نے ان قوانین کو اپنی رائے نہیں دی ہے ان پر بہی شرعی طور پر ان کی اتباع کرنا لازم ہے، البتہ تمام افراد اس بات سے واقف ہیںاور اسلامی حکومت کے قوانین کو تھہ دل سے تسلیم کرتے ہیں ان کو شرعی قوانین کی حیثیت دیتے ہیں اور ان کی مخالفت نہیں کرتے ۔

چونکہ وہ الھٰی اور اسلامی حکومت کے قوانین وضوابط سے آشنا ہیں اس طرح سے قوانین کے ضوابط کو قبول کرنا اور اس کی اتباع کرنا یہ نظام الھٰی کی خصوصیات میں سے ہے جو ہمارے ملک میں نظام ولایت فقیہ کے ماتحت وجود میںآئی ہے، اسلامی انقلاب سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ تمام لوگوں پر رھبر اور ولی فقیہ کی اطاعت کرنا ضروری ہے اور ان کے اوامر اور راھنمائی کی طرف خالصانہ قدم اٹھانے ہی سے ہم کامیاب ہوئے ہیں ،چاہے وہ دوران انقلاب ہو یا انقلاب کے بعد کا زمانھ، اور فی الواقع جنگ میں کامیابی اور سرفرازی کا رازبہی یہی ہیں۔

دنیا میں کون سا ایسا شخص ہے جو یہ نہ جانتا ہو کہ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی میں ایک اہم چیز لوگوں کا اپنی مذھبی رھبر پر اعتقاد رکھنا اور ان کی اطاعت کرنا تھا، اس وقت یہ کھنا بھت ہی بے انصافی ہوگی کہ جس ملک میں شہیدوں نے اپنی جانفشانی اور فداکاریوں سے امام خمینی ۺ اور مرجع تقلید کے امر سے جھاد کیا اور اسی راہ میں شیھد ہوگئے اورجس کی برکت سے اسلامی نظام وجود میں آیا اور یہی آزاد فضا جو شیھدوں کے خون اوران کی فداکاریوں کا نتیجہ ہے اس میں کچھ لوگ یہ کہیں کہ : امام خمینیۺ نے ایک دفعہ ہوا طوفان مچایا اور لوگوں کی تحریک کو نھضت انقلاب اسلامی کا نام دیدیا،کیا اس دعوے کی کوئی حقیقت ہے؟ اگر ایران کی عوام انقلاب کے موقع پر اپنے دینی اور شرعی وظیفہ کو انجام دینے کے لئے قیام نہ کرتے اور گولیوں کی بوچھار میں اپنے سینوں کو سِپر نہ بناتے تو کیا انقلاب کامیاب ہوجاتا؟ اور اگر امام خمینیۺ کا حکم نہ ہوتا تو کیا وہ اس کام کو کرتے؟ حقیقت کو بھُلانا اور اس کا انکار کرنا بے انصافی ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ دین اور امام خمینی ۺکے رھبریت نے ہمیشہ انقلاب کے کامیاب ہونے، اس کے دوام پانے اس کے بعد جنگ میں کامیابی پانے اور تمام مشکلوں اور سختیوں میں ثابت قدم رہ کراہم کردارادا کیا ہے، اور انشاء اللہ حضرت امام خمینی قدس سرہ کے لائق وشائستہ جانشین (حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی) اور ان کی حکیمانہ تدبیروں کے زیر سایہ یہ کامیابی وموفقیت ایران کے فدارکار لوگوں کی یکتائی اور ہمدلی کے ذریعہ اسی طرح باقی رہے گی، اور لوگ ولی فقیہ کے سایہ میں کمال اور ترقی کے مزید مراحل کو طے کریں گے۔

خلاصہ کلام یہ ہواکہ شہریت کی درجہ بندی کرنا ایک ایسی چیز ہے جس کو پوری دنیا کی تمام حکومتوں میں تسلیم کیا گیا ہے البتہ اسلام کے نقطھٴ نظر اور دوسروں کے نقطھٴ نظر سے شہریت کے ملاک اور اس کی شرطوں میں فرق ہے، لیکن شہریت کے درجہ میں اختلاف ایسی چیز نہیں ہے کہ ہم اس کو ایجاد کیا ہو، اور شہریت کے درجہ میں یہ فرق انسانیت میں لوگوں کے مشترک ہونے سے کوئی ربط نہیں رکھتا ہے ، تمام انسان انسانیت کے درجہ میں ایک ہیں، لیکن یاتو ان میں طبیعی طور پر وہ شرطیں موجود ہوتی ہیں جو وظائف اور حقوق کے اختلاف کا سبب ہوتی ہیں یا وہ جو خصوصیات، طاقت اور قابلیت کو حاصل کرتے ہیں ان کی وجہ سے ان کو کچھ منصب دئے جاتے ہیں او ران کے عوض میں ان کو حقوق دئے جاتے ہیں، تو اب حقوق اور وظائف کے مابین فرق یا تو طبیعی ہے یا افراد کے انتخاب اور اختیار میں ہے، مثال کے طور پر وہ خاص دین کو تسلیم کرلیں یا کسی فن میں مھارت حاصل کرکے کسی منصب کوحاصل کرلیں، اور اس میں کوئی شک وشبہ ہی نہیں ہے کہ یہ اختلاف اور کسب شدہ خصوصیات اور منجملہ اصول مبانی کو تسلیم کرنا وہ انسان کی شہریت میں موٴثر ہوسکتا ہے۔

والسلام

 

حوالے

.1سورہ مومنون آیت 22.

2۔سورہ شوری آیت49.

3۔سورہ یٰس آیت0 6



back 1 2 3 4 5 6