تقریب کے علمبر دار سید جمال الدین اسد آبادی



ان خطوط کی عبارت جو انہوں نے شیعہ علماء کو لکھی‘ خصوصاً مرحوم حاجی میرزا حسین شیرازی اور کئی وہ قراردادیں جو انہوں نے تہران‘ مشہد‘ اصفہان‘ تبریز‘ شیراز اور دوسری مذہبی جگہوں کے خدا پرست اہم شخصیات کو بھیجیں‘ اس امر کی کھل کر وضاحت کرتی ہیں۔

سید جمال سمجھ گئے تھے کہ گو کہ شیعی مذہبی علماء میں سے چند نے اپنے وقت میں استبدادی طاقتوں کے ساتھ روابط جوڑے‘ لیکن انہوں نے معاشرے‘ عوام اور مذہب سے بھی اپنا رشتہ قائم رکھا‘ دشمنوں کے کیمپوں سے اپنے عوام کی خدمت کی‘ تاہم کچھ ایسے لوت تھے جو یقینا اغیار کے بہت قریب چلے گئے‘ لیکن بہت ہی مختصر تھے ۔ تاریخ سے واضح ہے کہ عموماً شیعوں نے اپنے مذہبی علماء سے اپنا مذہبی رشتہ نہیں توڑا ۔

سید جمال کے مشن نے شیعی مذہبی علماء کے طبقے پر کافی اثرات مرتب کئے‘ چاہے وہ تمباکو تحریک ہو جس میں شیعہ علماء نے اندرونی استبداد اور بیرونی استعماریت کے خلاف ایک طوفان کھڑا کیا یا آئینی حکومت کے قیام کی تحریک ہو اور اس میں بھی شیعہ علماء کی رہبری اور تائید موجود تھی۔

تاریخ میں یہ نہیں ملتا کہ سید جمال الدین نے جو کہ ایک انقلابی مسلمان تھے‘ شیعہ مذہبی علماء کو کمزور اور پست کیا ہو‘ حالانکہ بعض لاعلمی اور ناواقفیت کے نتیجے میں ان کو کافی تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا ۔

(نقش روحانیت پیشرو در جنبش مشروطیات ایران‘ تالیف حامد الگیار‘ ترجمہ: ابوالقاسم سری)

جناب محیط طباطبائی لکھتے ہیں کہ

”سید نے اپنے یورپ کے پہلے دورہ میں جب وہ وہاں ”عروة الوثقٰی“ رسالہ نکالنا چاہتے تھے‘ یہ محسوس کیا کہ روحانی لوگوں میں اصلاح لانے کی قوت موجود ہے اس بات کو انہوں نے ایک خط میں واضح کیا جو انہوں نے مصر میں مقیم ایک ایرانی بنام داغستانی کو لکھا (حکومت کو دھوکہ دینے کے لئے انہوں نے اپنا جعلی نام داغستانی رکھا ہوا تھا) اس میں انہوں نے فرمایا کہ علمائے ایران نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کی ہے اور یہ ایرانی حکومت ہے جو عوام کے لئے مشکلات پیدا کر رہی ہے اور ان کے زوال اور تباہی کا سبب بن رہی ہے ۔ تہران میں موجودگی کے وقت علماء کے خلاف کوئی بات نہیں کی‘ جو کہ ان کے مزاج پر گراں گزرے‘ اس کے برعکس انہوں نے علماء کے ساتھ قریبی روابط رکھے ۔ انہوں نے ایک رسالہ ”پنچیریہ“ شائع کیا‘ اس کا عربی ترجمہ بیروت میں ہوا اور چھپ کر تقسیم بھی ہوا ۔ ایران آنے پر وہ اس رسالہ کی کچھ کاپیاں اپنے ساتھ لائے اور یہاں صاحبان علم و دانش میں تقسیم کیں‘ مذہبی اساتذہ کے ساتھ ملاقات کے دوران شعوری اور لاشعوری طور پر اس بات کا خیال رکھا کہ غرور و خود پسندی کا احساس نہ ہونے پائے‘ سنا ہے کہ جب سید نے مرحوم جناب جلوہ سے پہلی ملاقات کی تو انہوں نے اس بات کے پوچھنے پر کہ ”سید مصر میں شیخ (ابو علی سینا) کے کلمات پر درس دیتا ہے ۔“ نفی میں جواب دیا‘ تاکہ جلوہ ان کی بات سے مشتعل نہ ہوں۔“

(نقش سید جمال الدین در بیداری مشرق زمین‘ ص ۳۹-۴۰‘ ۵۲)

سید جمال کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ گو وہ ایسے مصلح تھے جو مسلمانوں کو مغرب کی جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے حصول پر آمادہ کر رہے تھے تاکہ جہالت اور لاعلمی پر قابو پایا جا سکے وہاں وہ جدیدیت میں انتہا پسندی کے خطرہ سے بھی پوری طرح آگاہ تھے ۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ مغربی سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی مسلمانوں کی جہان بینی اور نظریات کے درمیان ایک توازن برقرار رکھا جائے‘ وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان مغربی طرز کی جہان بینی پر فریفتہ ہو جائیں اور اسی عینک سے دنیا کو دیکھنے کی کوشش کریں اور یوں اسلامی جہان بینی سے دور ہٹ جائیں‘ وہ نہ صرف مغربی سیاست اور استعمار کے خلاف لڑے‘ بلکہ تہذیبی استعمار کے خلاف بھی سعی کی‘ انہوں نے ان لوگوں کے خلاف مہم چلائی جو کائنات اور قرآن مقدس اور اسلامی فلسفہ کی مغربی نقطہ نظر سے تاویل کرنا چاہتے تھے‘ وہ یہ مناسب نہیں سمجھتے تھے کہ قرآن کے مابعدالطبیعاتی مفاہیم کی‘ انسان کے شعوری اور مادی معاملات کی اصطلاحوں میں تاویل کی جائے ۔

ہندوستان کے دورے کے دوران ان کا تعارف ایک مسلمان مصلح سر سید احمد خان سے ہوا‘ انہوں نے دیکھا کہ وہ مابعدالطبیعاتی مسائل کی علم سائنس کے نام پر اور سائنس کے بہانے سے تشریح کی کوشش کر رہے ہیں کہ غیب اور معقولات کو قابل احساس و مشاہدہ قرار دے کر ان کی تاویل کی جائے اور وہ معجزہ کا ادراک عام اور سادہ معنوں میں کرنا چاہتے ہیں حالانکہ یہ معجزے قرآن میں بڑے واضح ہیں‘ قرآن کے آسمانی مفاہیم کو زمینی مفاہیم میں تبدیل کر دیں۔ سید نے ان باتوں پر اعتراض کیا‘ اس عہد کے ایک مورخ نے سید کے ہندوستانی دور کے متعلق اور سر سید احمد خان کے سلسلے میں ان کے موقف کے بارے میں لکھا ہے:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next