تقریب کے علمبر دار سید جمال الدین اسد آبادی



”اگر سید احمد نے مذہب میں اصلاح کے متعلق باتیں کی ہیں تو سید جمال نے مسلمانوں کو فتنہ انگیز مصلحوں اور اصلاحوں میں انتہا پسندی کے خطرات سے آگاہ کیا ۔ جہاں سید نے جدید نظریات کو جذب کرنے کی ہدایت کی‘ وہاں سید جمال اپنے اس استدلال پر قائم رہے کہ صرف مذہبی عقیدہ ہی ان تمام اسباب سے افضل ہے اور اس میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ انسان کی راہ مستقیم پر چلنے کی رہنمائی کرے‘ اگر سید نے مسلمانوں کو جدید تربیت حاصل کرنے کا شوق دلایا تو سید جمال نے تربیت کے ان نئے طریقوں کو ہندوستانی مسلمانوں کے مذہب اور قوم کے لئے زہر قاتل قرار دیا ۔ سید جمال جو کہ نئے نظریات اور تعلیمات کے علمبردار تھے‘ سید احمد جیسے جدیدیت پسند شخص کے سامنے آئے تو مجبور ہو گئے کہ وہ پرانے خیالات اور نظریات کے سرگرم حامی بنیں‘ تاہم وہ اپنے پہلے نظریے دینی فکری تحریک پر قائم رہے ۔“

اسلامی سوسائٹی میں جن بیماریوں کی سید جمال نے تشخیص کی‘ وہ یہ ہیں:

۱۔ حکام کا استبداد۔

۲۔ عام مسلمانوں میں جہالت‘ بے خبری اور ان کے کاروان علم و تمدن میں سست رفتاری۔

۳۔ مسلمانوں میں خرافات کا نفوذ اور ان کی اصلی اسلام سے دوری۔

۴۔ مذہبی اور دنیاوی مسائل و معاملات میں مسلمانوں کے درمیان جدائی اور نااتفاقی۔

۵۔ مغربی استعمار کے اثرات۔

ان بیماریوں کے علاج کے لئے سید نے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لائے‘سفر‘ ذاتی روابط‘ خطبات‘ کتابوں کی اشاعت‘ رسالے اور مختلف پارٹیوں اور گروپوں کی تنظیم کرنا حتیٰ کہ فوجی ملازمت میں شمولیت۔ وہ ۶۰ سال زندہ رہے اور ہمیشہ کنوارے رہے اور اہل و عیال سے بے نیاز رہے‘ کیونکہ ان کی زندگی ہمیشہ غیر یقینی تھی۔ وہ ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کرتے رہے تھے‘ زیادہ تر وقت جیل میں‘ جلاوطنی میں اور یا گھر میں نظربند کی حیثیت سے گزارتے تھے‘ اس صورت حال میں وہ بال بچوں کی ذمہ داری سے کیسے عہدہ برآ ہو سکتے تھے ۔

اوپر دی ہوئی برائیوں کے ختم کرنے کے لئے جو تجاویز انہوں نے پیش کیں‘ وہ یہ ہیں:

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next