تقریب کے علمبر دار سید جمال الدین اسد آبادی



اس طرح انہوں نے ایک فرانسیسی فلاسفر ارنسٹ رنان (Iernest Renan) کا منہ توڑ جواب دیا‘ جو اسلام کو سائنس کا مخالف مذہب سمجھتا تھا اور کہتا تھا کہ مسلمانوں کے زوال کا سبب اسلام ہی ہے ۔(رسالہ اسلام و علم‘ از ہادی خسروی شاہی)

5) بیرونی استعمار کے خلاف جنگ

اس کا مطلب اسلامی ممالک کے اندرونی معاملات میں سیاسی دخل اندازی اور اقتصادی استعمار جس میں حصول مراعات کے ظالمانہ نظام کا اجراء اور مسلمانوں کے اقتصادی اور مالی ذرائع کو ختم کر کے تہذیبی استعمار کو لانا اور پھر مسلمانوں کی تہذیب کو برباد کرنا اور ان کو تہذیبی طور پر کمزور بنانا ہے ۔ آخری نوآبادیاتی یا استعمار یہ ہے کہ اس بات کو ثابت کریں کہ صرف مغربی تہذیب ہی ہے جو انسان کی خوشحالی کا سبب بن سکتی ہے‘ تہذیبی استعمار اتنی شدت کے ساتھ پھیلایا گیا کہ ذی فہم مسلمان بھی یہ یقین کرنے لگے کہ اگر کسی مشرقی کو تہذیب یافتہ ہونا ہے تو وہ اہل یورپ کی تقلید کرے‘ وہ یورپی وضع قطع اختیار کر کے ان کی زبان سیکھے‘ ان کا لباس زیب تن کرے‘ ان کی عادات‘ خصائل‘ اعتقادات‘ فلسفہ‘ آرٹ اور تمام دیگر چیزیں اپنائے ۔

سید نے دین اور سیاست کی ہم بستگی کو دو محاذوں پر ضروری قرار دیا‘ پہلا محاذ‘ اندرونی استبداد اور دوسرا خطرہ بیرونی استعمار۔ انہوں نے انتھک کوشش کی کہ مسلمانوں کے ضمیر کو استبداد اور استعمار کے خلاف بیدار کیا جائے اور اس پروگرام کا ان کے اصلاحی مشن میں اہم مقام ہے ۔ اس کے مقابل میں استعمار کے کارندوں نے”سیکولرزم“ اور ”علمانیت“ کے نام پر مذہب اور سیاست کے درمیان دیوار بنانے کی کوشش کی۔ اس مخالف تحریک کی روح رواں کمال اتاترک تھا اور اس کا واحد مقصد سید جمال کے پروگراموں کو چیلنج کرنا تھا ۔ عرب دنیا میں سیکولرزم کا… پروپیگنڈہ عربی عیسائیوں نے کیا ۔ یہ نظریہ صاف ظاہر کرتا ہے کہا گر مذہب اور سیاست میں ہم بستگی پیدا کر دی جائے تو عربی عیسائیوں کو لئے کوئی ایسا کام نہیں رہ جاتا جو وہ سوسائٹی میں ادا کر سکیں۔ عرب عیسائی اس میں اکیلے نہیں تھے بلکہ کچھ مسلمان بھی اس نظریہ میں ان کے ساتھ شامل ہو گئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہبی روشن خیال اور ذی فہم لوگ بھی ان کے پرجوش طرفدار بن گئے‘ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟

یہ مسلمان حقیقت میں ایک اور بیماری کا شکار تھے‘ ہم جانتے ہیں کہ سنی دنیا میں خلیفہ اور حاکم ایک ہی ہوتا تھا اور جس کی اطاعت مذہبی فریضہ تھا‘ دین اور سیاست کا ایسا رابطہ بنایا گیا کہ سیاست نے دین کو استعمال کرنا شروع کر دیا‘ اس لئے ان کا مقصد یہ تھا کہ عثمانی خلیفہ اور حاکم مصر ایک دنیاوی مقام پر فائز سمجھے جائیں نہ کہ دینی‘ تاکہ لوگوں کا مذہبی اور ملی ضمیر ان پر تنقید کے سلسلے میں آزاد رہے‘ یہ صحیح راستہ تھا‘ سید جمال کے نزدیک دین اور سیاست کی وابستگی کا یہ مطلب نہیں‘ بقول کواکبی:

”جو کچھ اس نے تعلیم دی وہ یہ تھی کہ مسلمان عوام اپنی سیاسی سرنوشت میں اپنی شرکت کو ایک مذہبی فریضہ و ذمہ داری سمجھیں‘ دین اور سیاست کی وابستگی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مذہب کو سیاست سے ملایا جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاست کو مذہب کے ساتھ ملا دیا جائے ۔

وہ عرب جو سیکولرزم اور دین کو سیاست سے جدا رکھنے کے لئے مہم چلاتے رہے‘ انہوں نے کبھی اس سے انکار نہیں کیا کہ عوام کا سیاست میں شامل ہونا ایک دینی فریضہ ہے‘ لیکن دین اور سیاست کی جدائی کی جو پالیسی اتاترک نے اختیار کی وہ عوام کے لئے ایک بدبختی تھی‘ ایران میں بھی ایسا ہی ہوا اور عملاً دین کو سیاست سے جدا کر دیا گیا ۔ دوسرے لفظوں میں اس کو اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ پیکر اسلام سے اسلام کا ایک عزیز ترین عضو جدا کر دیا گیا ۔“

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اوپر دیئے گئے مفہوم کے تحت دین اور سیاست کی وابستگی یعنی حکام کو مقام قدس دینا صرف سنی مکتب کے ساتھ وابستہ ہے‘ تشیع اس کو قبول نہیں کرتا‘ اس کا ان کی تاریخ میں وجود نہیں ملتا‘ ان کے ہاں ”اولوالامر“ کی تشریح ایسی ہرگز نہیں ہے جو سنیوں نے کی ہے ۔

 

6) اسلامی اتحاد



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next