تقریب کے علمبر دار سید جمال الدین اسد آبادی



غالباً سید جمال ہی پہلا شخص تھا جس نے مغرب کے خلاف اسلامی اتحاد کا نعرہ بلند کیا‘ اسلامی اتحاد کا مطلب مذہبی اتحاد نہیں ہے جو کہ غیر عملی امر ہے‘ اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ ایک متحدہ سیاسی محاذ بنایا جائے اور استعماریت کے خلاف متحدہ صف بنائی جائے ۔

سید نے مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ مغربی عیسائیوں میں عموماً اور انگلستان میں خصوصاً ابھی تک ”صلیبی روح“ زندہ اور شعلہ زن ہے‘ بے شک مغرب نے تعصب کے خلاف آزاد منشی کا برقعہ پہن لیا ہے‘ لیکن ان کے اندر مسلمانوں کے خلاف تعصب ابھی تک موجود ہے ۔ مغرب پرستوں کے برخلاف تعصب کا ہونا سید کے نزدیک برا نہیں تھا‘ ہر دوسری چیزوں کی طرح تعصب بھی افراط و تفریط اور اعتدال رکھتا ہے‘ تعصب میں افراط انسان میں غیر استدلالی جانبداری اور اندھی تقلید پیدا کرتا ہے‘ جو برائیاں ہیں‘ اپنے منطقی و عقلی عقائد کی حمایت کے معنی میں تعصب بہت اچھی چیز ہے ۔

سید نے فرمایا:

”اہل یورپ جو یہ جانتے ہیں کہ دین ہی وہ واسطہ ہے جو کہ مسلمانوں کو آپس میں ملاتا ہے‘ اس کو کمزور کرنے کے لئے انہوں نے تعصب کی مکارانہ مخالفت کی‘ لیکن خود ہر مذہب اور ہر جماعت سے زیادہ متعصب ہیں‘ گلیڈسٹوں سینٹ پرس کی روح کا ترجمان ہے‘ یعنی صلیبی جنگوں کی یاددہانی کرانے والا ۔“

سید کے حقیقت پسندانہ خیالات کو اس وقت مزید تقویت پہنچی‘ جب جنگ عظیم اول میں یہودی افواج کے یورپی کمانڈر نے عرب اسرائیل جنگ کے دوران بیت المقدس کو مسلمانوں سے لے کر یہودیوں کی تحویل میں دے دیا اور صیہونی حکومت اسرائیل کا قیام کر کے یہ اعلان کیا ”اب صلیبی جنگیں ختم ہو گئیں“۔

استعماریت نے قوم پرستی اور نسل پرستی کے بیج بوئے اور مسلمان ملکوں میں ”پان عربی ازم‘ پان ایرانی ازم‘ پان ترکی ازم اور پانی ہندو ازم“ کے نعرے بلند ہونے لگے ۔ ایسی پالیسی کے تحت مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دی گئی‘ شیعہ سنی جھگڑے ہوئے‘ دنیائے اسلام کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے بہت سے حصوں میں بانٹ دیا گیا ۔ یہ سب کچھ ”اسلامی اتحاد“ کے خلاف استعماری سازشیں تھیں۔

سید کا مقصد اسلامی سوسائٹی کے نیم مردہ بدن میں حضرت عیسیٰ۱(ع)کی طرح مزاحمت اور جہاد کی روح پھونکنا تھا‘ انہوں نے مسلمانوں کو بتایا کہ جہاد کے اصول کو دوبارہ اپنائیں‘ کیونکہ اس کا بھولنا ان کے انحطاط کا اہم سبب تھا‘ اگر مغربی لوگوں میں صلیبی روح ابھی تک موجود ہے تو مسلمان جہادی روح کو کیوں چھوڑ چکے ہیں؟

کتاب سیری در اندیشیا ہائے سیاسی عربی میں منقول ہے کہ

”سید برطانیہ کو نہ صرف استعماری قوت بلکہ مسلمانوں کا ”صلیبی دشمن“ تصور کرتا تھا‘ ان کا خیال تھا کہ برطانیہ کا مقصد اسلام کی مکمل بیخ کنی ہے اور وہ مسلمانوں کا اس لئے دشمن ہے کہ وہ اسلام کے ماننے والے ہیں۔ یہ برطانیہ کی پالیسی رہی ہے کہ مسلمانوں کا کچھ علاقہ ان سے چھین کر کسی دوسری اسلام دشمن کمیونٹی کو دے دیتا ہے‘ لہٰذا وہ مسلمانوں کی شکست پر خوش ہوتا ہے اور اپنا مفاد مسلمانوں کی تباہی و بربادی میں دیکھتا ہے ۔ برطانیہ کے خلاف مہم میں ان کو اور بھی یقین ہو گیا کہ اسلام مزاحمت اور جہاد کا دین ہے اور انہوں نے دینی جہاد کے شروع کرنے پر مزید زور دیا ۔ ان کے نزدیک اس حکومت کے خلاف جس نے اسلام کو ختم کرنے کا تہیہ کیا ہوا تھا‘ طاقت استعمال کرنے کے سوا کوئی اور چارئہ کار نہیں تھا ۔“

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next