تقریب کے علمبر دار سید جمال الدین اسد آبادی



1) استبدادی حکام کی خود غرضی کے خلاف جنگ

کون یہ جنگ لڑے؟ عوام‘ لیکن عوام کو کس طرح میدان جنگ میں اتارا جائے؟ کیا اس راسے سے کہ ان کو بتایا جائے کہ تمہارے حقوق کو کس طرح پامال کیا گیا ہے؟ یہ بجا ہے کہ اس کو بنیادی اہمیت دی جائے‘ لیکن یہ کافی نہیں تو پھر کیا کرنا چاہئے؟… بنیادی کام یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں پختہ یقین پیدا کرنا چاہئے کہ سیاسی جدوجہد ایک شرعی اور مذہبی فریضہ ہے‘ یہ واحد راستہ ہے اور لوگ اس وقت تک اطمینان سے نہیں بیٹھیں گے جب تک وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر لیتے ۔ وہ لوگ غفلت میں ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ سیاست اور مذہب ایک دوسرے سے جدا ہیں‘ مذہب اور سیاست کی ہم بستگی کو عام لوگوں پر آشکارا کرنا چاہئے ۔

مذہب اور سیاست میں باہمی رابطہ کی ضرورت پر زور‘ سیاسی بیداری کا احیاء جو کہ ہر مسلمان کا ایک شرعی فریضہ ہے اور اس کا ملکی سیاست میں عملی شرکت اور ساتھ ہی اسلامی سوسائٹی کا قیام‘ وہ نظریات ہیں جو سید کے نزدیک ان وقتی بیماریوں کا علاج ہیں‘ وہ عملاً اپنے عصر کے استبدادی حکام کے ساتھ لڑتے رہے اور اپنے پیروکاروں کو ان کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے پر اکساتے رہے‘ ناصر الدین شاہ پر حملہ انہی کی تحریکوں کا نتیجہ تھا ۔

 

۲) جدید سائنسی اور ٹیکنالوجی سے لیس ہونا

یہ ایک حقیقت ہے کہ سید جمال نے اس سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا اور انہوں نے سکول اور سائنسی ادارے نہیں بنائے‘ انہوں نے صرف قلم اور زبان سے اس کی تبلیغ کی۔

 

۳) اصلی اسلام کی طرف پلٹنا

اسکا مطلب ان خرافات اور بے کار حاشیہ آرائیوں کا خاتمہ ہے جو اسلام کی لمبی تاریخ کے دوران اس میں شامل کر دی گئی ہیں۔ سید کے نزدیک اسلام کی طرف پلٹنے کا مطلب قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنا اور دوبارہ اپنے صالح اسلاف کی سیرت پر کاربند ہونا ہے ۔ انہوں نے صرف قرآن کی طرف پلٹنا تجویز نہیں کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خود قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کو ضروری سمجھتا ہے‘ مزید برآں وہ ”حسبنا کتاب اللّٰہ“ کے جملہ میں موجود تمام خطرات سے بخوبی واقف تھے ۔ یہ وہ جملہ ہے جو ہر زمانے اور ہر دور میں اسلام کے چہرے کو مسخ کرتا رہا ہے ۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next