مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق



اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کی خاطر جسے وہ پسند نہیں کرتا اور جس کی طرف وہ مائل نہیں ہے اپنے ارادے اور اختیار سے جان دے دے اور قربانی ہوجائے اور اس کے لیے اپنی خواہشات اور مرغوبات چھوڑ بیٹھے بجز اس صورت کے وہ ایک ایسا عقیدہ رکھتا ہو جس کی طاقت اس کی خواہشات اور مرغوبات سے زیادہ ہو ، جیسے عدالت اور احسان کا عقیدہ اس صوت میں زیادہ طاقتور میدان (مثلاً عدالت اور احسان چاہنے کا عقیدہ) کمزور رجحانات کو دبا دیتا ہے ۔ یہ زیادہ پکا اور مضبوط عقیدہ انسان میں اس وقت جنم لیتا ہے جب کہ وہ بلند روح کا مالک ہو، ایسی روح جو اس سے زیادہ بلند ہو کہ خیالی اور مادی معاملات کی خاطر مادے سے ماورا (یعنی حقیقی، معنوی اور روحانی ) معاملات کو نظر انداز نہ کرے، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ کسی غیر کے ساتھ احسان اور انصاف کیے جانے کے مرحلے کو اعلیٰ سمجھے گا ۔

انسان اس صورت میں اس روحانی پروگرام کا محتاج ہوتا ہے جب وہ اپنے اور تمام انسانوں کے بھائی چارے کے جذبے اور سچی محبت کے قائم رکھنے سے عاجزہ جائے ۔ ورنہ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ محبت، عدالت کی جگہ لے لیتی ہے اور محبت کی حکومت میں عدالت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔

اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمان پر بھائی چارے Ú©ÛŒ صفت سے آراستہ ہونا واجب ہے Û” اسے سب سے پہلے یہ چاہیے کہ وہ دوسروں Ú©Û’ ساتھ بھائی چارے کا جذبہ رکھے اور جب اپنے نفس Ú©ÛŒ خواہشات غالب آجانے Ú©Û’ باعث اپنے اندر یہ جذبہ پیدا کرنے سے عاجز رہ جائے (جیسا کہ اکثر ہوتا ہے) تو اسلامی مواعظ اور رہبریو Ú©ÛŒ پیروی کرکے اپنے نفس میں عدالت اور احسان طلبی کا عقیدہ مضبوط کرے اور اس Ú©ÛŒ بدولت اسلامی مقاصد حاصل کرے اور اگر اسے مرحلے سے بھی مجبور ہوگیا تو پھر وہ صرف نام کا مسلمان ہے (کیونکہ محبت Ú©Û’ درجو Ú©ÛŒ کوئی انتہا نہیں ہے اور عدل ØŒ اسلام Ú©ÛŒ آخری حد ہے جس Ú©Û’ بعد کفر Ùˆ ضلالت ہے) اور وہ اللہ Ú©ÛŒ سرپرستی اور حزب اللہ سے باہر Ù†Ú©Ù„ گیا ہے اور امام  Ú©ÛŒ تشریح Ú©Û’ مطابق جو بیان Ú©ÛŒ جارہی ہے خدا اس پر مہربانی اور عنایت نہیں کرتے گا Û”

اکثر نفس کی سرکش خواہشیں اور تقاضے انسان پر غالب آجاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اس کے لیے دشوار ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے لیے انصاف چاہنے کی ضرورت محسوس کرے تو پھر اس بات کا توخیر خیال ہی چھوڑ دیجیے کہ وہ انسانی انصاف کی اتنی طاقت اپنے اندر اکٹھی اور تیار کرلے کہ اپنے نفس کی سرکش خواہشوں اور تقاضوں پر غالب آجائے ۔

یہی وجہ ہے کہ بھائی چارے کے حقوق کا لحاظ اس حالت میں جب کہ انسان میں بھائی چارے کا سچا جذبہ نہ ہو سب سے مشکل مذہبی تعلیم اور سبق ہے ، چنانچہ امام جعفر صادق ؑ نے اپنے ایک صحابی معلیٰ بن خنیس کے جواب میں جس نے بھائی چارے کے حقوق پوچھے تھے اس کی حالت کا خیال کیا اور اس ڈر سے کہ معلیٰ بن خنیس ان حقوق کو جانتا ہے لیکن ان پر عمل نہیں کرسکتا اس کی قوت برداشت سے زیادہ وضاحت نہیں کی ۔

معلیٰ بن خنیس کہتے ہیں ØŒ میں Ù†Û’ امام جعفر صادق  سے عرض کیا :

مَا حَقُّ المُسلِمِ عَلَی المُسلِمِ :۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر کیا حق ہے ؟

آپ نے فرمایا :

لَہُ سَبعُ حُقُوقٍ وَاجِبَاتٍ ، مَامِنھُنَّ حَقٌّ اِلاَّ وَھُوَ عَلَیہِ وَاجِبٌ ، اِن ضَیَّعَ مِنھَا شَیئاً خَرَجَ مِن وِلاَیَۃِ اللہِ وَطَاعَتِہِ ، وَلَم یَکُن لِلّٰہِ فِیہِ نَصِیبٌ :۔ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر سات حق واجب ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک خود اس پر بھی واجب ہے اگر وہ ان میں سے ہر حق ضائع کردے گا تو خدا کی بندگی، حکومت اور سرپرستی سے باہر نکل جائے گا اور پھر خدا کی طرف سے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا ۔

میں نے کہا : میں آپ پر فدا ہوجاؤں، وہ حقوق کیا ہیں؟



back 1 2 3 4 5 6 next