فدک کے غصب ہونے کے بعد جناب سیده کا خطبه



 

 

روایت ہے جب ابو بکر، اور عمر نے فدک غصب کر لینے کا فیصلہ کیا، اور یہ خبر جناب زہرا کے پاس پہنچی، تو آپ نے برقعہ سر پر لیا اور اپنی رشتہ دار اور گھرمیں کام کرنے والی خواتین کے ہمراہ اس انداز میں مسجد نبوی کی جانب بڑھیں کہ آپ کا برقعہ زمین پر کھنچا جا رہا تھا اور پیغمبر اسلام(ص) کی طرح چلتی ہوئی ابو بکر کے پاس گئیں جو مہاجرین، و انصار اور بعض دوسرے لوگوں کے درمیان بیٹھے تھے، اس دوران لوگوں اور آپ کے درمیان پردہ لگا دیا گیا، آپ نے دلخراش آہ بھری جس پر لوگ رونے لگے اور مسجد اور محفل میں ہیجان پیدا ہو گیا، کچھ دیر خاموش رہیں، یہاں تک کہ دوبارہ ولوگوں پر سکوت طاری ہوا، تو تب حمد باری تعالیٰ سے اپنے کلام کا آغاز ہو گیا، اور رسول خدا پر درود و سلام بھیجا، دوبارہ رونے کی آوازیں بلند ہوئیں، پھر جب سکوت طاری ہوا تو اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا۔

 

نعمتیں عطا کرنے پر اس کی حمد وثنا کرتی ہوں، اور الہام کرنے پر اس کی شکر گذار ہوں، مخلوق پر نعمتوں کی کثرت اور وسیع و عریض عطاؤں پر اس کی ثنا گواہوں، ان گنت احسانات جن کو شمار کرنے سے عاجز ہیں اور اجر و ثواب دینے کی حد اور انتہا کہیں زیادہ ہے اور ہمیشہ کے لئے ادراک اور شعور سے وسیع تر ہے اس نے لوگوں کو دعوت دی کہ اس سے زیادہ شکر گذار کریں تاکہ وہ نعمتوں میں اضافہ فرمائے، اور اس طرح نعمتوں میں وسعت سے لوگوں کو اپنی شکر گذاری کی طرف متوجہ کیا اور شکر گذار ہونے پر ان نعمتوں میں دوگنا اضافہ فرمایا۔

 

اور میں گواہی دیتی ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں، یہ بہت بڑی بات ہے کہ اخلاص کو لوگوں کی عاقبت بخیر ہونے اور دلوں کو اپنے سے ملنے کا ظرف قرار دیا ہے اور تفکر اور سوچنے کے لئے اپنی پہچان کو آسان بنایا، وہ ذات جسے آنکھیں دیکھنے سے قاصر ہیں، زبانیں اس کی توصیف کرنے سے ناتواں ہیں، خیالات اس کو درک کرنے سے عاجز ہیں۔

 

بغیر کسی پیشگی چیزوں کے موجودات کو خلق کیا، اور پہلے سے کسی سانچے کی اتباع کیے بغیر موجودات کو پیدا کیا، بلکہ انہیں اپنی قدرت اور ارادے سے وجود بخشا، ان کے بنانے اور پیدا کرنے میں اسے کوئی حاجت نہیں اور نہ ہی اس کیلئے تصویر کشی میں کوئی فائدہ ہے۔ سوائے اس کے کہ اس کی حکمت ثابت ہوجائے اور اس کی اطاعت پر آگاہی ہوجائے اور اپنی قدرت پر اظہار کے لئے اور اپنی عبودیت سے آگاہی اور اپنی دعوت کو گرامی بنانے کے لئے پھر اپنی اطاعت کرنے پر ثواب اور معصیت انجام دینے پر عذاب مقرر کیا تاکہ بندوں کو پستیوں سے محفوظ بنا کر بہشت کی جانب رہنمائی کرے۔

 

اور میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے باپ حضرت محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ ان کو بھیجنے سے پہلے منتخب کیا اور انتخاب سے پہلے نام پیغمبر ہی رکھا، اور مبعوث کرنے سے پہلے چن لیا، انہیں اس وقت چنا جب مخلوقات پردہ غیب میں تھیں، انتہائی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھیں، بلکہ عدم نیستی کی سرحد پر کھڑی تھیں، اس کے کاموں کے انجام سے آگاہی کی خاطر اور حادثات زمانہ پر محیط ہونے کی وجہ سے قضا و قدر کے واقع ہونے پر مکمل پہچان کیلئے حضرت محمد کوبھیجا تاکہ اس کا امر کامل، حکم قطعی اور فضا و قدر عملی صورت پیدا کریں، انہوں نے مختلف امتوں کو دیکھا جو ادیان کی پیروکار تھیں، کچھ آتش پرست تھیں اور کچھ تراشے گئے بتوں کی پرستش کرنے والی تھیں جبکہ خداوند قدوس کی طرف سے فطرت میں رکھی گئی شناخت کے باوجود اس کے منکر تھے۔



1 2 3 4 5 6 7 8 9 next