ايمان ابوطالب



'' بحيرا'' نے كہا : اس بچہ كا مستقبل بہت درخشاں ہے، يہ وہى پيغمبر ہے كہ جس كى نبوت ورسالت كى آسمانى كتابوں نے خبردى ہے اور ميں نے اسكى تمام خصوصيات كتابوں ميں پڑھى ہيں _

 

ابوطالب اس واقعہ اور اس جيسے دوسرے واقعات سے پہلے دوسرے قرائن سے بھى پيغمبر اكرم (ص) كى نبوت اور معنويت كو سمجھ چكے تھے _

 

اہل سنت كے عالم شہرستانى (صاحب ملل ونحل) اور دوسرے علماء كى نقل كے مطابق: ''ايك سال آسمان مكہ نے اپنى بركت اہل مكہ سے روك لى اور سخت قسم كى قحط سالى نے لوگوں كوگھير لياتو ابوطالب نے حكم ديا كہ ان كے بھتيجے محمد كو جو ابھى شير خوارہى تھے لاياجائے، جب بچے كو اس حال ميں كہ وہ ابھى كپڑے ميں لپيٹا ہوا تھا انہيں ديا گيا تو وہ اسے لينے كے بعد خانہ كعبہ كے سامنے كھڑے ہوگئے اور تضرع وزارى كے ساتھ اس طفل شير خوار كو تين مرتبہ اوپر كى طرف بلند كيا اور ہر مرتبہ كہتے تھے، پروردگارا، اس بچہ كے حق كا واسطہ ہم پر بركت والى بارش نازل فرما _

 

كچھ زيادہ دير نہ گزرى تھى كہ افق كے كنارے سے بادل كا ايك ٹكڑا نمودار ہوا اور مكہ كے آسمان پر چھا گيا اور بارش سے ايسا سيلاب آيا كہ يہ خوف پيدا ہونے لگا كہ كہيں مسجد الحرام ہى ويران نہ ہوجائے ''_

 

اس كے بعد شہرستانى لكھتا ہے كہ يہى واقعہ جوابوطالب كى اپنے بھتيجے كے بچپن سے اس كى نبوت ورسالت سے آگاہ ہونے پر دلالت كرتا ہے ان كے پيغمبر پر ايمان ركھنے كا ثبوت بھى ہے اور ابوطالب نے بعد ميں اشعار ذيل اسى واقعہ كى مناسبت سے كہے تھے :

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next