عصمت کی حقيقت



جواب :

قارئین کرام !    اس سلسلہ میں لفظ ”ذنب“ Ú©Û’ بارے میں بعض مفسرین Ù†Û’ بہت سی وجوھات بیان Ú©ÛŒ ھیں ان میں سب سے بہتر وجہ وہ Ú¾Û’ جس Ú©Ùˆ سید مرتضیٰ Ûº Ù†Û’ اختیار کیا Ú¾Û’ ØŒ (سید مرتضیٰ Ûº کا علم وادب اور لغت میں منفرد مقام Ú¾Û’) چنانچہ موصوف فرماتے ھیں:

”آیہ کریمہ میں لفظ ”ذنبک“ سے مراد امت محمدی Ú©Û’ گناہ ھیں کیونکہ ذنب مصدر Ú¾Û’ اور مصدر کبھی کبھی فاعل Ú©ÛŒ طرف مضاف هوتا Ú¾Û’ مثلاً  ”اعجبنی شعرک اٴو ادبک اٴو نثرک“ (مجھے تمھارے اشعار یا نثر اور ادب پر تعجب Ú¾Û’) کیونکہ اس مثال میں مصدر اپنے فاعل Ú©ÛŒ طرف مضاف هوا Ú¾Û’ØŒ لیکن کبھی کبھی مصدر اپنے مفعول Ú©ÛŒ طرف بھی مضاف هوتا Ú¾Û’ مثلاً: ”ساء Ù†ÛŒ سجنک اٴ Ùˆ مرضک“ ( میں آپ Ú©Û’ قید هونے یا مرض میں مبتلاهونے Ú©ÛŒ وجہ سے پریشان هوا) کیونکہ اس مثال میں مصدر اپنے مفعول Ú©ÛŒ طرف مضاف هوا Ú¾Û’ اور جس Ú©Ùˆ قید هوئی یا بیمارهو وہ مفعول Ú¾Û’Û”

اب آئےے قرآن مجید کی اس آیت میں دیکھتے ھیں کہ لفظ ”ذنب“ مفعول کی طرف اضافہ هوا ھے اور ذنب سے مراد امت کے ذریعہ نبی کے اوپر واقع هونے والے سبّ و شتم ا ورمذاق اڑانے کے گناہ ھیں نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی تکذیب اور جنگ میں آپ کو اذیت دینے والے کے گناہ مراد ھیں۔

اور اگر قرآن کی آیت کے اس طرح معنی نہ کریں تو آیت کی تفسیر نھیں هوسکتی، آیت کو ملاحظہ فرمائیں ارشاد هوتا ھے:

<اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُّبِیْناً لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاٴَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ>[3]

”اے رسول  یہ حدیبیہ Ú©ÛŒ صلح نھیں (بلکہ) Ú¾Ù… Ù†Û’ حقیقتاً تم Ú©Ùˆ کھلم کھلا فتح عطا Ú©ÛŒ Ú¾Û’ تاکہ خدا تمھاری امت Ú©Û’ اگلے Ù¾Ú†Ú¾Ù„Û’ گناہ معاف کردے اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کردے۔“

کیونکہ اس آیہٴ کریمہ میں فتح کے بعد غفران وبخشش کا ذکر ھے اور جس روز فتح حاصل هوئی اس روز غفران نھیں تھی کیونکہ یہ آیت صلح حدیبیہ کے بعد نازل هوئی، خداوندعالم نے اس صلح کانام فتح رکھا، اور اسی صلح کے ذریعہ سے فتح مکہ کے اسباب فراھم هوئے، چنانچہ اس طرح سے آیت کے معنی واضح هوجاتے ھیں :

” اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُبِیْناً لِیَغْفِرَلِاَجَلِکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِ قومکَ نَحْوِکَ وَمَا تَاٴَخَّرَمنہ بعد ہذا الصلح والی ان َیُتِمَّ الفتح ولیتم نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ بالفتح الکبیر والنصر العظیم“

یعنی اے میرے حبیب ھم نے تم کو واضح طور پر فتح وکامیابی عنایت کی اور اس صلح کے بعد سے مکمل کامیابی تک آپ کی وجہ سے آپ کی قوم کے گذشتہ وآئندہ کے گناہ بخش دئے تاکہ خدا اس عظیم فتح کے ذریعہ تم پر اپنی نعمتیں نازل کرے۔

قارئین کرام !    اگر مذکورہ آیہ مبارکہ Ú©Û’ معنی بعض کج فکر لوگوں Ú©ÛŒ طرح کریں کہ ذنب سے مراد بذات خود آنحضرت صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلمکے گناہ  ھیں تو پھر اس فتح Ú©Û’ بعد غفران وبخشش کوئی معنی نھیں رکھتے، کیونکہ اس بخشش Ú©Û’ سوا اس Ú©Û’ اور کوئی معنی نھیں هوتے کہ فتح Ú©Û’ بعد ان لوگوں Ú©Û’ گناہ بخش دئے جائیں جنھوں Ù†Û’ رسول اسلام صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلمکی شان میں بے ادبی کی، ان لوگوں Ú©Û’ وطن Ú©Ùˆ لشکر نبوی Ú©Û’ ذریعہ فتح کرائے او ران Ú©Û’ جاھلیت Ú©Û’ زمانہ Ú©Ùˆ ختم کردے۔



back 1 2 3 4 5 6 next