عصمت کی حقيقت



اور خدا پرھیزگاروں سے خوب واقف ھے (پیچھے رہ جانے کی) اجازت تو بس وھی لوگ مانگیں گے جو خدا او رروز آخرت پر ایمان نھیں رکھتے اور ان کے دل (طرح طرح کے) شک کررھے ھیں تو وہ اپنے شک میں ڈانواںڈول هورھے ھیں (کہ کیاکریں او رکیا نہ کریں)اور اگر یہ لوگ (گھر سے) نکلنے کی ٹھان لیتے تو (کچھ نہ کچھ) سامان تو کرتے مگر (بات یہ ھے ) خد ا نے ان کے ساتھ بھیجنے کو ناپسند کیا تو ان کو کاھل بنادیا اور (گویا) ان سے کہہ دیا کہ تم بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے (مکھی) مارتے) رهو۔“

جواب:

قارئین کرام !    ان آیات میں غور وفکر کرنے سے یہ بات واضح هوجاتی Ú¾Û’ کہ کلمہ ”عفا الله عنک“ میں گناہ شرعی نھیں Ú¾Û’ یعنی Ø­Ú©Ù… خدا Ú©ÛŒ مخالفت نھیں Ú©ÛŒ بلکہ ان آیات میں پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلمکو اس بات Ú©ÛŒ ہدایت Ú©ÛŒ گئی Ú¾Û’ کہ آپ جنگ میں شرکت نہ کرنے والوں Ú©Û’ جھوٹ وسچ Ú©Ùˆ Ú©Ù† طریقوں سے پہچانےں تاکہ آپ Ú©Ùˆ اپنے اصحاب میں صادقین وکاذبین Ú©ÛŒ شناخت هوجائے، کیونکہ اگر آپ ان لوگوں Ú©ÛŒ تاخیر میں اجازت نہ دیتے تو جھوٹے اور سچوں Ú©ÛŒ پہچان هوجاتی، لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلمنے ان لوگوں Ú©Ùˆ جنگ میں شرکت نہ کرنے Ú©ÛŒ اجازت دیدی جو یہ کہہ رھے تھے کہ Ú¾Ù… جنگ میں جانے سے معذور ھیں لہٰذا ان Ú©ÛŒ سچائی کا ثبوت نہ مل سکا کیونکہ ان میں سے بعض لوگ سچے تھے اور بعض لوگ صرف بھانہ کررھے تھے لیکن ان Ú©Û’ درمیان کوئی پہچان نہ هوسکی۔

چوتھی آیت:

<وَوَجَدَکَ ضَالاًّ فَہَدیٰ>[7]

اور چونکہ ضلال عصمت کے مخالف ھے اور گمان کرنے والوں نے یہ گمان کرلیا کہ جس میں ضلالت وگمراھی پائی جائے گی وہ ذات معصوم نھیں هوسکتی۔

جواب:

 Ø­Ù‚یقت یہ Ú¾Û’ کہ ضلال Ú©Û’ معنی ذھاب اور انصراف Ú©Û’ ھیں جیسا کہ Ú¾Ù… جانتے ھیں کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلمپھلے یہ نھیں جانتے تھے کہ کس طرح خدا Ú©ÛŒ عبادت Ú©ÛŒ جائے اور اپنے واجبات Ú©ÛŒ ادائیگی کرکے کس طرح تقرب الٰھی حاصل کیا جائے تو اس وقت تک خاص معنی میں عبادت نھیں کرتے تھے یھاں تک کہ خداوندعالم Ù†Û’ آپ Ú©ÛŒ ہدایت Ú©ÛŒ اور رسالت اسلام سے سرفراز کیا اور مذکورہ آیت انھیں آیات میں سے Ú¾Û’ جن میں خداوندعالم Ù†Û’ اپنے نبی پر نازل کردہ نعمتوں Ú©Ùˆ شمار کیا اور اپنی خاص عنایات آنحضرت صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلمکے شامل حال رکھیں۔

ارشاد هوتا ھے:

<اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْماً فَآویٰ وَوَجَدَکَ ضَالاًّ فَہَدیٰ وَوَجَدَکَ عَائِلاً فَاَغْنٰی>[8]

”کیا اس نے تم کو یتیم پاکر (ابوطالب) کی پناہ نھیں دی (ضرور دی) او رتم کواحکام سے ناواقف پایا تو تمھیں منزل مقصود تک پهونچادیا او رتم کو تنگدست پاکر غنی کردیا“

چنانچہ یہ آیات واضح طور پر ھمارے مطلوب ومقصور پر دلالت کرتی ھیں کیونکہ خداوندعالم نے جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو یتیم پایا تو آپ کو پناہ دی اور پرورش کی اور جب آپ کو تنگدست پایا تو آپ کو غنی کردیا اس کے بعد جب خاص معنی میں عبادت کا طریقہ نھیں آتا تھاتو خداوندعالم نے عبادت خاص کی طرف ہدایت کی۔



back 1 2 3 4 5 6 next