عصمت کی حقيقت



دوسری آیت:

< وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِی اٴَنْعَمَ اللهُ عَلَیْہِ وَاٴَنْعَمْتَ عَلَیْہِ اٴَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللهَ وَتُخْفِی فِی نَفْسِکَ مَا اللهُ مُبْدِیہِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَاللهُ اٴَحَقُّ اٴَنْ تَخْشَاہُ فَلَمَّا قَضَی زَیْدٌ مِنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَہَا۔>[4]

”اے رسول اس وقت کو یاد کرو جب اس شخص (زید) سے کہہ رھے تھے جس پر خدا نے احسان (الگ)کیا اور تم نے اس پر (الگ)احسان کیا ،(جناب زید کو حکم هوتا ھے کہ)تم اپنی زوجہ (زینب) کو اپنی زوجیت میں رہنے دو اور خدا سے ڈرو، غرض جب زید اپنی حاجت پوری کرچکا (طلاق دیدی) تو ھم نے (حکم دے کر) اس عورت (زینب) کا نکاح تم سے کردیا“

جیسا کہ بعض لوگوںنے دعویٰ کیا ھے کہ اس آیہ کریمہ میں رسول اسلام کی سرزنش اور ملامت کی گئی ھے کیونکہ وہ لوگوں کی قیل وقال سے خوف زدہ تھے۔

جواب:

 Ø¬ÛŒØ³Ø§ کہ آپ حضرات جانتے ھیںکہ یہ آیہ کریمہ زید بن حارثہ اور ان Ú©ÛŒ زوجہ جناب زینب بنت جحش Ú©Û’ بارے میں Ú¾Û’ او رھم Ù†Û’ چند صفحے قبل اس بارے میں تفصیل بیان Ú©ÛŒ Ú¾Û’ جس Ú©Û’ مطالعہ Ú©Û’ بعد قارئین کرام آیت Ú©Û’ سیاق وسباق سے اچھی طرح آگاہ ھیں چنانچہ آپ حضرات اس آیت Ú©Û’ ذیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلمکی کوئی سرزنش اور ملامت نھیں پاتے۔

تیسری آیت:

<عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وتَعْلَمَ الْکَاذِبِیْنَ >[5]

بعض لوگوں کا گمان یہ ھے کہ کلمہ ”عفا الله عنک“ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے گناہ پر دلالت کرتا ھے کیونکہ بخشش اور معاف کرنا گناہ او رخطا کے بعد ھی تصور کیا جاسکتا ھے۔

جواب:

 Ø­Ù‚یقت یہ Ú¾Û’ کہ اس آیہ کریمہ Ú©Û’ معنی اس وقت تک سمجھ میں نھیں آسکتے جب تک اس Ú©Û’ سیاق وسباق Ú©Ùˆ مد نظر نہ رکھیں کیونکہ ماقبل ومابعد Ú©Ùˆ سامنے رکھ کر Ú¾ÛŒ آیت Ú©Û’ اصلی معنی سمجھے جاسکتے Ú¾Û’ÚºÛ”

ارشاد خداوندی هوتا ھے:

< لَوْ کَانَ عَرَضًا قَرِیبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَاتَّبَعُوکَ وَلَکِنْ بَعُدَتْ عَلَیْہِمُ الشُّقَّةُ وَسَیَحْلِفُونَ بِاللهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَکُمْ یُہْلِکُونَ اٴَنفُسَہُمْ وَاللهُ یَعْلَمُ إِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ ۔ عَفَا اللهُ عَنْکَ لِمَ اٴَذِنتَ لَہُمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْکَاذِبِینَ ۔لاَیَسْتَاٴْذِنُکَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ اٴَنْ یُجَاہِدُوا بِاٴَمْوَالِہِمْ وَاٴَنفُسِہِمْ وَاللهُ عَلِیمٌ بِالْمُتَّقِینَ ۔ إِنَّمَا یَسْتَاٴْذِنُکَ الَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُہُمْ فَہُمْ فِی رَیْبِہِمْ یَتَرَدَّدُونَ ۔ وَلَوْ اٴَرَادُوا الْخُرُوجَ لَاٴَعَدُّوا لَہُ عُدَّةً وَلَکِنْ کَرِہَ اللهُ انْبِعَاثَہُمْ فَثَبَّطَہُمْ وَقِیلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِینَ >[6]

”(اے رسول ) اگر سردست فائدہ اور سفر آسان هوتا تو یقیناً یہ لوگ تمھارا ساتھ دیتے مگر ان پر مسافت Ú©ÛŒ مشقت طولانی هوگئی، اور (اگر پیچھے رہ جانے Ú©ÛŒ پوچھو Ú¯Û’ تو )یہ لوگ فوراً خدا Ú©ÛŒ قسمیں کھائیں Ú¯Û’ کہ اگر Ú¾Ù… میں سکت هوتی تو Ú¾Ù… بھی ضرور تم لوگوں Ú©Û’ ساتھ Ú¾ÛŒ Ú†Ù„ Ú©Ú¾Ú‘Û’ هوتے (یہ لوگ جھوٹی قسمیں کھاکر ) اپنی جان آپ ھلاک کئے ڈالتے ھیں او رخدا تو جانتا Ú¾Û’ کہ یہ لوگ بیشک جھوٹے ھیں Û”(اے رسول  ) خدا تم سے درگزر فرمائے تم Ù†Û’ انھیں (پیچھے رہ جانے Ú©ÛŒ)اجازت Ú¾ÛŒ کیوں دی تاکہ (تم ایسا نہ کرتے تو) سچ بولنے والے (الگ )ظاھر هوجاتے اور تم جھوٹوں Ú©Ùˆ (الگ) معلوم کرلیتے۔ (اے رسول ) جو لوگ (دل سے) خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ھیں وہ تو اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے جھاد (نہ) کرنے Ú©ÛŒ اجازت مانگنے Ú©Û’ نھیں (بلکہ وہ خود جائیں Ú¯Û’)



back 1 2 3 4 5 6 next