معراج



چنانچہ علامہ مجلسی مرحوم متعلقہ آیات بیان کرنے کے بعد معراج کے بارے میں لکھتے ھیں:

”رسول خدا کا بیت المقدس کی جانب عروج کرنا اور وھاں سے ایک ھی رات میں آسمانوں پر پھونچنا اور وہ بھی بدن مبارک کے ساتھ ایسا موضوع ھے جس کے بارے میں ایسی آیات اور متواتر شیعہ سنی روایات ھم تک پھونچی ھیں جو اس واقعہ کے وقوع پر دلالت کرتی ھیں، اس حقیقت سے انکار کرنا یا روحانی معراج کی تاویل پیش کرنا یا اس واقعہ کا خواب میںرونما ھونا اس بات کو ظاھر کرتا ھے کہ کھنے والے نے پیشوایان دین (ع) کی کتابوں کا کم تتبع کیا ھے، اور یا یہ بات اس کے ایمان کی کمزوری و ضعف اعتقاد پر مبنی ھے۔ (بحار۔ ج۱۸، ص۲۸۹)

حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد قریش کا ردعمل۔ ۔ ۔

حضرت ابوطالب کی رحلت کے بعد قریش کی گستاخیاں بڑہ گئیں اور وہ بھت زیادہ بے باک ھوگئے، پھلے سے کھیں زیادہ رسول خدا کو آزار و تکلیف پھونچانے لگے، دین اسلام کی تبلیغ کے لئے انھوں نے آپ پر سخت پابندیاں لگادیں، اور اس کا دائرہ بھت محدود کردیا چنانچنہ نوبت یھاں تک پھونچی کہ آپ حج کے زمانے کے علاوہ اپنے دین و آئین کی تبلیغ نھیں کر سکتے تھے۔

رسول خدا کا یہ فرمانا کہ ”جب تک ابوطالب زندہ رھے قریش مجھے ایسی گزند نھیں پھونچا سکے جو میرے لئے سخت ناگوار ھوتی۔“ (السیرة النبویہ۔ ج۲، ص۵۸)

اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد قریش کی جانب ایذا رسانی اور شکنجہ کشی کی واردات میں اضافہ ھوگیا تھا،مگر ان سختیوں اور پابندیوں کے باوجود رسول خدا ان مھینوں میں جو ماہ حرام قرار دیئے گئے تھے موقع غنیمت سمجھتے اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے، چنانچہ حج کے تین ماہ کے دوران ”عکاظ“ ”محجنہ''اور ”ذوالمجاز“ کے بازاروں کے علاوہ جھاں بھی لوگ جمع ھوتے رسول خدا ان کے پاس تشریف لے جاتے، وھاں سرداران قبائل نیز سربرآوردہ اشخاص سے ملاقات کرتے اور ھر ایک کو آسمانی آئین کی دعوت دیتے تھے۔

ان ملاقاتوں کی وجہ سے ھر چند رسول خدا (ص) کی مخالفت کی جاتی اور ان کے بعد سرداران قبائل کا رد عمل ظاھر ھوتا، لیکن مخالفت اور رد عمل کے باوجود یہ ملاقاتیں نھایت ھی مفید اور ثمر بخش ثابت ھوئیں، کیونکہ کوئی بھی فرد یا قبیلہ ایسا نہ ھوتا جومکہ میں داخل ھوتا اور اس تک کسی نہ کسی طرح رسول خدا کی دعوت کا پیغام نہ پھونچتا، چنانچہ فریضۂ حج کے ادا کرنے کے بعد جب وہ لوگ واپس اپنے اپنے گھروں کو جاتے تو وہ اس دعوت و ملاقات کو دوران حج کے اھم واقعہ یا خبر کی صورت میں دوسروں کے سامنے بیان کرتے۔

قبیلہ بنی عامر بن صعصہ ان مشھور قبائل میں سے تھا جس کے افراد کو رسول خدا نے وحدت پرستی کی دعوت دی۔

”بیحر“ ابن فراس“ کا شمار اس کے قبیلے کے سربرآوردہ اشخاص میں ھوتا تھاجسے رسول اکرم (ص) کی شھرت اور قدر و منزلت کے بارے میں کم و بیش علم تھا، اس نے جب یہ بات سنی تو کھنے لگا، ”خدا کی قسم اگر قریش میں اس نوجوان کو حاصل کرلوں تو اس کے ھاتھوں میں عرب کو نگل جاوٴں گا۔ (یعنی اس کے ذریعہ دنیوی مال و متاع حاصل کروں گا)

چنانچہ یہ سوچ کر وہ رسول خدا کے پاس آیا اور کھنے لگا کہ اگر ھم تمھارے ھاتہ پر بیعت کرلیں اور تمھارا خدا ھمیں تمھارے مخالفین پر کامیاب بھی کردے تو کیا تمھاری قوم کی رھبری و سرداری ھمیں واگذار کردی جائے گی؟ اس پر رسول خدا نے فرمایا: ”یہ خدا کا کام ھے وہ جسے اھل سمجھے گا اسے جانشین مقرر کرے گا۔“

بیحرہ نے جب رسول اللہ سے یہ جواب سنا تو کھنے لگا کہ ھم تمھاری خاطر عربوں سے جنگ کریں اور جب کامیاب ھوجائیں تو قوم کی رھبری دوسروں کے ھاتھوں میں چلی جائے ایسی جنگ اور رھبری سے ھم باز آئے۔ (السیرة النبویہ۔ ج۱، ص۱۶)



back 1 2 3 4 5 6 7 next