معراج



رسول اکرم (ص) جتنے عرصے ”غار ثور“ میں تشریف فرما رھے حضرت علی (ع) پیغمبر خدا اور آپ کے یار غار ابوبکر کے لئے کھانا پھونچاتے رھے، اس کے ساتھ ھی آپ (ع) مکہ کے حالات و واقعات سے بھی آنحضرت کو اطلاع فرماتے رھے۔

پیغمبر اس غار کے قیام کی چوتھی شب میں امیر المومنین حضرت علی (ع) کی معنوی کشش اور ان ملاقاتوں کے دوران آسمانی آئین کی فطرت سے ھم آھنگی آپ کی سود مند و پر مغز گفتگو اس امر کا باعث ھوئی کہ قبائل ”اوس“ و ”خزرج“ کے افراد جانب حق کشاں کشاں چلے آئیں اور دین اسلام کو انھوں نے خوشی خوشی قبول کر لیا۔

پیغمبر اکرم (ص) کو قتل کرنے کی سازش

جب مسلمانوں کی تقریباً اکثریت متفق و یکجا ”یثرب“ منتقل ھوگئی اور وہ شھر دین اسلام کا جدید مرکز بن گیا تو قریش کے سردار جو اس وقت تک اس گمان میں مبتلا تھے کہ رسول خدا اور اصحاب رسول ھمیشہ ان کے رحم و کرم پر زندہ رھیں گے اور ایذا و آزار پھونچا کر انھیں کسی بھی وقت فنا کیا جاسکتا ھے یہ کیفیت دیکھ کر سخت مضطرب و پریشان ھوئے، رسول خدا (ص) کے ساتھ اھل یثرب جس حفاظتی عھد و پیمان پر کاربند ھوئے تھے اس نے بھی ان کے لئے خطرہ پیداکردیا تھا، چنانچہ اب وہ اس کی اھمیت و سنگینی کے بارے میں سونچنے لگے، کیونکہ انھیں یہ خوف لاحق تھا کہ کھیں رسول خدا ان لوگوں کی مدد سے جو آپ کے ساتھ عھد و پیمان میں شریک ھیں، ان سے انتقام لینے پر کمر بستہ نہ ھوجائیں، یا کم از کم منطقہ ”یثرب“ پر غالب آنے کے بعد مسلمان ان کی تجارت اور معاشی زندگی کو تو تباہ کر ھی سکتے ھیں۔

ان حالات کے پیش نظر قریش کے سردار ”دار الندوہ“ میں جمع ھوئے، طویل بحث و گفتگو اور تبادلۂ خیال کے بعد انھوں نے اس رائے سے اتفاق کیا کہ ھر قبیلے سے ایک دلیر جوان منتخب کیا جائے اور سب مل کر راتوں رات رسول اکرم (ص) کے گھر کا محاصرہ کرلیں اور آنحضرت پر حملہ آور ھوکر آپ (ص) کو قتل کر ڈالیں ایسی صورت میں آپ کا خون تمام قبائل پر تقسیم ھوجائے گا، اور ”حضرت عبد مناف“ کی آل و اولاد قریش کی پوری طاقت کا مقابلہ نہ کرسکے گی، اور اگر انھوں نے خون بھا کا مطالبہ بھی کیا تو سب مل کر اسے ادا کردیں گے۔

رسول اکرم (ص) کو وحی کے ذریعہ ان کی سازش کے بارے میں علم ھوگیا تھا چنانچہ آنحضرت ھدایت کے مطابق راستہ بدل کر دوسرے راستے سے یثرب کی جانب روانہ ھوئے۔

انقلاب کی ضرورت کے تحت ھجرت

قرآن مجید میں جن اھم اور تعمیری اصول و قواعد کا ذکر کیا گیا ھے انھی میں ”ایمان“ اور ”جھاد“ کے پھلو بہ پھلو ”ھجرت“ کے بارے میں بھی تاکید کی گئی ھے۔

ھجرت کے معنیٰ ان قیود و بندشوں سے نجات اور رھائی حاصل کر لینا ھیں جو انسان کے وجود یا اس کی زندگی میں ھوتے ھیں، ھوا و ھوس اور کثافتوں سے دل و دماغ کو پاک کرلینا اور ان سے فراغت پالینا ھی انسان کی مھاجرت کا عالی ترین مرحلہ ھے۔

اس ضمن میں رسول خدا (ص) نے فرمایا:

اشرف الھجرت ان تھجر السَّیئات۔

چنانچہ یھی وجہ ھے کہ خداوند تعالیٰ کی جانب سے مقرر کردہ ھادی و رھبر نیز مصلحین انسانیت نے درجۂ کمال پر پھونچنے اور اپنی مقدس آرزوٴں کوعملی شکل میں دیکھنے کے لئے ”ھجرت“ و تحریک کا آغاز ھو گناہ و آلائش سے اجتناب کے ساتھ کیا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 next