معراج



وہ آیات جو بعثت کے ابتدائی دنوں میں نازل ھوئیں ان میں قرآن مجید کا ارشاد ھے کہ : یا ایھا المدثر قم فانذر۔

اے اوڑہ لپیٹ کر لیٹنے والے، اٹھو اور ڈراوٴ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے کپڑے پاک رکھو اور گندگی سے دور رھو۔

اگلے مرحلے میں ”آفاقی ھجرت“ کی ھدایت کی گئی، یعنی اس معاشرے سے ھجرت جو مرگ پذیر ھے اور جس میں کفر کے باعث جمود و سکوت واقع ھوگیا ھے، یہ ھجرت اس ماحول کی جانب ھے جو زندہ و آزاد ھے، اور اس کا مقصد عقائد کا تحفظ نیز انقلاب کے اغراض و مقاصد کو حقیقت کی شکل میں پیش کرنا ھے۔

اس مرحلے پر ھجرت کا مفھوم دشمن یا میدان جنگ سے فرار نھیں بلکہ یہ وہ مقام ھے جھاں سے نئے انقلاب کا آغاز ھوتا ھے، اگر حضرت ابراھیم (ع) حضرت موسیٰ (ع) اور حضرت عیسیٰ (ع) نے معاشرے کے اس ماحول سے ھجرت کی جھاں کفر و شرک کا دور دورہ تھا تو اس کا مطلب ھرگز یہ نھیں تھا کہ یہ انبیاء اپنی جد و جھد سے دستکش ھوگئے تھے اور انھیں اپنے جان و مال کی فکر لاحق ھوگئی تھی بلکہ اس کا مطلب یہ ھے کہ جب انھیں اپنے وطن میں تبلیغ اور سرگرمی، عمل کے مواقع نظر نہ آئے تو انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ یھاں سے ھجرت کرکے مناسب اور آزاد ماحول میں پھونچیں اور بیشتر طاقت و توانائی اور امکانات کے ساتھ اپنی جد و جھد کو جاری رکھیں۔

رسول اکرم (ص) نے جب یہ دیکھا کہ آپ کی ھر اصلاح پسندانہ سعی و کوشش مکہ کے مایوس کن اور دبے ھوئے ماحول میں لاحاصل اور بے نتیجہ ھے نیز دوسری طرف ان حالات سے مقابلہ کرنے کی تاب و مجال بھی نھیں تو آپ نے بحالت مجبوری اپنے انقلاب کے تحفظ اور اسے جاری رکھنے کی خاطر ھجرت کو ترجیح دی، تاکہ اپنی تحریک کی کتاب کا نیا باب شروع کرسکیں اور دین مبین اسلام کو علاقائی محدود ماحول سے نکال کر اس کی دعوت آزاد اور عالمی فضاء کے ماحول میں پیش کریں۔

اسلام کی عالمی تحریک کا یہ نیا عظیم باب اس قدر اھم اور تقدیر ساز تھا کہ اسے تاریخ اسلام کا مبداٴ و آغاز قرار دیا گیا، چنانچہ پیغمبر اکرم (ص) کا وہ دین و آئین جو اس وقت تک واقعہ ”عام الفیل“ سے وابستہ تھا اور اپنی تاریخ کا آغاز کھلاتا تھا اب اس سے رھائی اور نجات مل گئی تھی۔

مدینہ ھجرت کرنے کے بعد رسول خدا کے اقدامات

قبا میں رسول خدا کی تشریف آوری

رسول خدا نو دن تک پیغمبری کرنے کے بعد بتاریخ ۱۲ /ربیع الاول بروز پیر ”قبا“ میں تشریف فرما ھوئے، جھاں لوگوں نے آپ کا نھایت ھی گرم جوشی سے استقبال کیا کیونکہ انھوں نے کافی عرصے قبل یہ خبر سنی تھی کہ آنحضرت مکہ سے یثرب تشریف لانے والے ھیں، اسی لئے وہ لوگ بے صبری سے آپ کی تشریف آوری کا انتظار کر رھے تھے۔

پیغمبر اکرم ”کلثوم بن ھدم“ کے گھر قیام فرما ھوئے اور ”سعد ابن خیثمھ“کی قیام گاہ کو اس بناپر کہ وہ مجرد آدمی تھے عام لوگوں سے ملاقات کے لئے پسند کیا(السیرة النبویہ ج۲، صفحات ۱۳۷۔ ۱۳۸)

رسول خدا مکہ سے ھجرت فرما کر یثرب تشریف لے گئے تو حضرت علی (ع) تین روز تک مکہ میں قیام پذیر رھے، اور پیغمبر کی ھدایت کے مطابق کام انجام دیتے رھے اس کے بعد اپنی والدۂ محترمہ حضرت فاطمہ بنت اسد، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا، فاطمہ بنت زبیر اور دیگر اصحاب کے ھمراہ مکہ سے مدینے کی جانب روانہ ھوئے آج کے حساب سے گویا تقریباً چار سو ستر کیلو میٹر طویل راستہ پیدل طے کیا، چنانچہ بروز جمعرات ربیع الاول کے نصف میں قبا میں پیغمبر کی ملاقات سے مشرف ھوئے، رسول خدا نے قبا میں قیام کے دوران بنی عمر ابن عوف کے قبیلہ کی عبادت کے لئے مسجد کی بنیاد رکھی، یہ مسجد آج بھی قبا کے نام سے مشھور ھے، اور یھی وہ پھلی مسجد ھے جو مسلمانوں نے تعمیر کی تھی۔ (حوالہ سابق)



back 1 2 3 4 5 6 7