معراج



رسول اکرم کی اس گفتگو کے اھم نکات

۱۔ عام مشاھدہ ھے کہ اھل سیاست اقتدار حاصل کرنے سے قبل عوام و قوم سے بڑے بڑے وعدے کرتے ھیں، جنھیں وہ کبھی پورا نھیں کرتے، لیکن پیغمبر اکرم نے موجودہ سیاست کی روش کے برعکس قبیلہ ”بنی عامر“ کی اس شرط پر کسی قسم کا وعدہ نھیں کیا۔

۲۔ قول پیغمبر اس حقیقت کا آئینہ دار ھے کہ مسئلۂ امامت امر الٰھی پر منحصر ھے، اور خداوند تعالیٰ جسے اس کا اھل سمجھے گا اسے پیغمبر کا جانشین مقرر کرے گا۔

یثرب کے لوگوں کی دین اسلام سے واقفیت

جس وقت بنی ھاشم اور بنی مطلب شعب ابو طالب میں محصور تھے اس وقت یثرب سے ”اسعد ابن زرارہ اور ذکوان ابن عبد القیس“ قبیلہ خزرج کا نمائندہ بن کر مکہ میں اپنے حلیف ”عقبہ ابن ربیعہ“ کے پاس آئے اور قبیلہ اوس سے جنگ کے سلسلے میں مدد چاھی۔

عقبہ نے مدد کرنے سے عذر ظاھر کیا اور کھا کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان طویل فاصلہ ھونے کے علاوہ ھم یھاں ایسی مصیبت میں گرفتار ھیں کہ جس سے نجات پانے کے لئے ھمارا کوئی بس نھیں چل رھا ھے، اس نے ”نبی اکرم“ اور آپ کی تبلیغی سرگرمیوں کے واقعات ”خزرج“ کے نمائندگان کو بتائے اور تاکید سے کھا کہ وہ آنحضرت سے ھرگز ملاقات نہ کریں، کیونکہ وہ شخص ساحر و جادوگر ھے اور اپنی باتوں سے لوگوں کو رام کر لیتا ھے، اس کے ساتھ ھی اس نے ”اسعد“ کو حکم دیا کہ جس وقت کعبہ کا طواف کرے تو اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لے تاکہ پیغمبر کی آواز اس کے کانوں میں نہ پھونچے۔

”اسعد“ طواف کعبہ کے ارادے سے ”مسجد الحرام“ میں داخل ھوا، وھاں اس نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم (ص) ”حجر اسماعیل“ پر تشریف فرما ھیں، اس نے خود سے کھا کہ میں بھی کیسا نادان ھوں بھلا ایسی خبر مکہ میں گرم ھو اور میں اس سے بے خبر رھوں، میں بھی تو سنوں کہ یہ شخص کیا کھتا ھے تاکہ واپس اپنے وطن جاکر لوگوں کو اس کے بارے میں بتاوٴں، رسول خدا (ص) کی باتیں سننے کی خاطر اس نے روئی اپنے کانوں سے نکال دی، اور رسول خدا کی خدمت میں حاضر ھوا، آنحضرت نے اسے دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جسے انھوں نے قبول کیا اور ایمان لے آئے، اس کے بعد ”ذکوان“ نے بھی دین اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کر لیا۔ (الصحیح من السیرة النبی۔ ج۲، ص۱۹۰۔ ۱۹۱)

دوسرے مرحلے پر اھل یثرب میں وہ چہ اشخاص جن کا تعلق ”خزرج“ سے تھا بعثت کے گیارھویں سال دوران حج پیغمبر اکرم (ص) کی ملاقات سے مشرف ھوئے۔

رسول خدا نے انھیں دین اسلام کی دعوت دی، اور قرآن مجید کی چند آیتوں کی تلاوت فرمائی، وہ رسول خدا کی ملاقات کا شرف حاصل کرکے اور آپ کی زبان مبارک سے بیان حق سن کر ایک دوسرے سے کھنے لگے۔۔۔ خدا کی قسم یہ وھی پیغمبر ھے جس کے ظھور کی خبر دے کر یھودی ھمیں خوف دلایا کرتے تھے، آوٴ پھلے ھم ھی دین اسلام قبول کرلیں، ایسا نہ ھو کہ اس کارخیر میں وہ ھم پر سبقت لے جائیں، یہ کھہ کر ان سب نے دین اسلام اختیار کرلیا، جب وہ واپس یثرب گئے تو انھوں نے اپنے عزیز و اقارب کو بتایا کہ انھوں نے کیسے رسول خدا سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور انھیں بھی دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔

تیسرے مرحلے پر اھل یثرب میں سے بارہ اشخاص میں سے دس کا تعلق قبیلہ ”خزرج“ سے تھا اور دوسرے قبیلہ ”اوس“ سے بعثت کے بارھویں سال ”عقبہ منا“ میں رسول خدا کی ملاقات سے شرف یاب ھوئے ان بارہ اشخاص میں سے جابر ابن عبد اللہ کے علاوہ پانچ افراد وہ تھے جو کہ ایک سال قبل بھی رسول اکرم (ص) کی خدمت میں حاضر ھونے کا شرف حاصل کر چکے تھے۔

ان اشخاص نے دین اسلام قبول کرنے کے بعد پیغمبر اکرم (ص) کے دست مبارک پر ”بیعت نساء“ کے طریقے پر بیعت کی، اور عھد کیا کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھھرائیں گے، چوری سے باز رھیں گے، زنا کے مرتکب نہ ھوں گے، اپنی لڑکیوں کے قتل کو ممنوع قرار دیں گے، ایک دوسرے پر الزام و بھتان نہ لگائیں گے نیز کار خیر میں رسول اللہ کا ھر حکم بجالائیں گے۔

رسول خدا نے مصعب ابن عمیر کو ان کے ھمراہ یثرب کی طرف روانہ کیا تاکہ وھاں پھونچ کر وہ دین اسلام کی تبلیغ کریں اور لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیم دیں، اس کے ساتھ ھی وہ آنحضرت کو شھر کی حالت کے بارے میں اطلاع دیں نیز یہ بتائیں کہ وھاں کے لوگ دین اسلام کو کس سطح پر قبول کر رھے ھیں، مصعب پھلے مسلمان مھاجر تھے جس نے یثرب پھونچنے اور روزانہ نمازجماعت کا وھاں انتظام کیا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 next