تکبّر



افق زندگى ميں فروغ محبت

بشري حيات کا افق ھميشہ فروغ محبت سے روشن و تابناک رھا ھے ۔ محبت کے نتائج بڑے دور رس ھوتے ھيں ۔ انسان کى مادى و معنوي ترقى ميں محبت بڑے عجيب انداز سے اثر انداز ھوتى ھے ۔ يہ عظيم طاقت فطرت کى رہ گذر سے ھوتے ھوئے انساني ضمير ميں خمير ھو کر ايک گھرے اور بيکراں سمندر ميں جا کر ختم ھو جاتى ھے ۔

اگر محبت کا حيات بخش فروغ افق زندگى سے محروم ھو جائے تو وحشتناک تنھائى و نا اميدى کى تاريکي آدمى کى روح کا محاصرہ کر ليتى ھے اور چھرھٴ حيات رنج و غم کا وہ مرقع پيش کرنے لگتا ھے جس کے ديکھنے سے آدمى زندگى سے بيزار ھو جائے ۔

انسان فطرتاً مدنى الطبع پيدا ھوا ھے ۔ دوسروں سے ربط و ضبط ،ميل ملاپ اس کے وجود کے ضروريات ميں سے ھے ۔ فکري اختلافات عموماً انسان کو بزم سے بيزار بنا کر تنھائى کا خو گر بنا ديتے ھيں ۔جو لوگ عمومى اجتماعات سے فرار کرتے ھيں اور تنھائى کے خوگر ھو چکے ھيں ان کے وجو د وفکر ميں يقينا نقص پيداھوجاتا ھے ۔کيونکہ يہ بات طے شدہ ھے کہ انسان کبھى بھى تنھائى ميں خو ش بختي کااحساس نھيں کر سکتا ۔ بس يوں سمجھئے جس طرح انسان کي جسمانى ضروريات بھت زيادہ ھيں اور انسان ان کي تکميل کے لئے مسلسل تگ ودو ميں لگا رھتا ھے ۔ اسى طرح اس کى روح تشنھٴ محبت ھے اور اس کى بيشمار خواھشات ھيں جن کى تکميل کے لئے مسلسل سعى و کوشش کرتا رھتا ھے ۔ انسان نے جس دن سے دنيا کے اندر قدم رکھا ھے اور اس نے اپنى کتاب زندگى کے اوراق کھولے ھيں اس وقت سے ليکر ان آخري لمحات تک جب اس کى کتاب زندگى ختم ھونے والى ھوتى ھے وہ محبت و خلوص مھربانى و نوازش کا بھوکا رھتا ھے اور اپنے دل ميں اس کا احساس بھى کرتا ھے اسى لئے جب زندگى کے بوجہ کو اپنے کندھوں پر زيادہ محسوس کرنے لگتا ھے اور روح فرسا حادثات اس کو جھنجھوڑ کر رکہ ديتے ھيں ۔ مصائب و متاعب ، ناکامى و نا اميدى رشتہ ٴ اميد کو قطع کرنے لگتى ھے تو وہ اس وقت بڑى شدت کے ساتھ ضرورت سے زيادہ مھر و محبت کا پياسا نظر آتا ھے اور اس کا دل چاھتا ھے کہ اس کے دل پر اميد کا نور سايہ فگن ھو جائے اور اس وقت اس کے سکون و آرام کى کوئى صورت مھر و محبت کے علاوہ نظر نھيں آتى ايسى حالت ميں اس کے زخم و غم کا مرھم صرف نوازش و محبت ھى ھوا کرتى ھے ۔

اپنے ھم نوع افراد سے الفت و محبت انسانى جذبات کا درخشاں ترين جذبہ ھے بلکہ اس کو فضائل اخلاقى کا منبع سمجھنا چاھئے ۔ دل بستگي اورارتباط قابل انتقال چيز ھے ۔ دوسروں کى محبت حاصل کرنے کے لئے سب سے بھترين ذريعہ يہ ھے کہ انسان دوسروں سے محبت کرے اپنے پاک جذبات کو دوسروں پر بے دريغ نچھاور کرے اور يہ عقيدہ رکھے کہ اپنے ھم نوع افراد سے محبت کرنے کے علاوہ اس کا کوئى دوسرا فريضہ ھى نھيں ھے ۔ دوسروں سے اظھار محبت بڑا نفع بخش سودا ھے اگر کوئى اپنے خزانھٴ دل کے اس گوھر کو دوسرے کو ديدے تو اس کے بدلے ميں اس کو بڑے قيمتى جواھرات مليں گے ۔ لوگوں کے دلوں کى کنجى خود انسان کے ھاتہ ميں ھے اگر کوئى محبت کے گرانبھا خزانوں کو حاصل کرنا چاھتا ھے تو اپنے پاس خلوص و محبت سے بھرا دل رکھے اور لوح دل کو تمام نا پسنديدہ صفات سے منزہ کرلے ۔

اھل فلسفہ کھتے ھيں : ھر چيز کا کمال اس کى خاصيت کے ظھور ميں ھے اور انسان کى خاصيت انس و محبت ھے ، يہ انس و محبت کا جذبہ اور روحانى تعلق جو لوگوں کے دلوں ميں پيدا ھوتا ھے وہ ھمکارى و ھمزيستى کى بنياد کو لوگوں ميں مضبوط کرتا ھے ۔

ڈاکٹر کارل اپنى کتاب ” راہ و رسم زندگى “ ميں تحرير کرتا ھے : معاشرے کو خوشبخت بنانے کے لئے ضرورى ھے کہ اس کے افراد ايک مکان کى اينٹوں کى طرح باھم متصل و متحد ھوں ليکن سوال يہ ھے کہ لوگوں کو کس سيمنٹ کے ذريعہ انيٹوں کى طرح متصل کيا جائے ؟ تو اس کا جواب يہ ھے کہ وہ سيمنٹ محبت ھے ۔ جو کبھى کسى ايک خاندان کے اندر دکھائى ديتي ھے ليکن اس خاندان کے باھر اس کا وجود نھيں ھوتا ۔ اپنے ھم نوع افراد سے محبت کرنے کے دو پھلو ھوتے ھيں ايک پھلو تويہ ھوتا ھے کہ اپنے کو اس لائق بنائے جس کى وجہ سے دوسرے اس سے محبت کريں جب تک معاشرے کا ھر فرد اپنى نا پسند عادتوں کو ترک کرنے کى کوشش نہ کرے گا معاشرہ خوشبخت نھيں ھو سکے گا ۔ اس کے لئے ضرورى ھے کہ ھم اپنے کو بدليں اور اپنے ان عيوب سے نجات حاصل کريں جن کى وجہ سے لوگ ھم سے کتراتے ھيں ۔ اس وقت ممکن ھے کہ ايک پڑوسي دوسرے پڑوسى کو محبت کى نظر سے ديکھے، ملازم آقا سے ، آقا ملازم سے محبت کرے ۔ انسانى معاشرے کے اندر صرف عشق و محبت کے سھارے وہ نظم پيدا کيا جا سکتا ھے ۔ جو فطرت نے ھزاروں سال سے چونٹيوں اور شھد کى مکھى ميں پيدا کيا ھے کہ دونوں مٹھاس پر جمع ھوتى ھيں ۔

جز محبت نپذيريم کہ برلوح وجود    نيست پايندہ تر از نقش محبت رقمى

ھم اس بات کو نھيں تسليم کر سکتے کہ لوح وجود پر نقش محبت کے علاوہ کوئى اور چيز پايندہ تر ھو سکتى ھے ۔

تکبر باعث نفرت ھے

”حب ذات “کاغريزہ انسانى فطرت ميں ان بنيادى غرائز ميں سے ھے جو بقائے حيات کے لئے ضرورى ھے ، انسان کي اپنى حيات سے دلچسپى اور اس کى بقاء کے لئے کوشش کا سر چشمہ يھى ” حب ذات“ ھے ، اگر چہ يہ فطرت کا عطا کردہ ذخيرہ ايک بھت ھى نفع بخش طاقت ھے اور بھت سے پسنديدہ صفات کو اسى غريزہ کے ذريعہ انسان ميں پيدا کيا جا سکتا ھے ۔ ليکن اگر يہ غير معقول صورت ميں اور بطور افراط نماياں ھو جائے تو مختلف برائيوں اور اخلاقى انحرافات کا سبب بھى بن جاتا ھے ۔

فضائل اخلاقى کے لئے سب سے بڑا خطرہ ”حب ذات “ ميں افراط ھے ۔ کيونکہ حب ذات ميں افراط کا نتيجہ يہ ھوتا ھے کہ پھر اس کے دل ميں دوسرے افراد سے محبت کرنے کى جگہ ھى باقي نھيں رھتى اور يھى حب ذات ميںافراط انسان کو اپنى غلطيوں کے اعتراف سے روکتا ھے اور ان حقائق کے قبول کرنے پر تيار نھيں ھونے ديتا ، جن سے اس کے تکبر کا شيشہ چور ھو جاتا ھو ۔



1 2 3 4 5 6 next