تکبّر



پروفيسر روبنيسون کھتا ھے : ھم کو بارھا يہ اتفاق ھوتا ھے کہ خود بخود بغير کسى زحمت و پريشانى کے اپنا نظريہ بدل ديتے ھيں ۔ليکن اگر کوئى دوسرا ھمارے نظريہ کي غلطى يا اشتباہ پر ھم کو مطلع کرے تو پھر دفعةً ھم ميں ايک انقلاب پيدا ھو جاتا ھے اور ھم اس غلطى کو تسليم نھيں کرتے بلکہ اس کا دفاع کرنے لگتے ھيں ھم کسى بھي نظريہ کو خود بڑى آسانى سے قبول کر ليتے ھيں ۔ ليکن اگر کوئى دوسرا ھم سے ھمارا نظريہ چھيننا چاھے تو ھم ديوانہ وار اس کا دفاع کرنے لگتے ھيں ۔ ظاھر سى بات ھے ھمارے عقيدہ و نظريہ ميں کوئى مخصوص رابطہ نھيں ھے صرف اسکى وجہ يہ ھے کہ ھمارى خود خواھى و تکبر کى حس مجروح ھوتى ھے ۔ اس لئے ھم تسليم نھيں کرتے اور اسى لئے اگر کوئى ھم سے کھے کہ تمھارى گھڑى پيچھے ھے يا تمھارى گاڑى بھت پرانے زمانہ کى ھے تو ممکن ھے کہ ھم کو اتنا ھى غصہ آ جائے جتنا يہ کھنے پر آتا ھے کہ تم مريخ کے بارے ميں جاھل ھو يا فراعنہ مصر کے بارے ميں تمھارى معلومات صفر کے برابر ھے ۔ ( آخر يہ غصہ کيوں آتا ھے صرف اس لئے کہ ھمارے تکبر اور ھمارى انانيت کو ٹھيس نہ لگ جائے )

انساني نيک بختى اور بشرى سعادت کى سب سے بڑى دشمن ”خود پسندى “ ھے لوگوں کى نظروں ميں تکبر و خود پسندي جتنى مذموم صفت ھے کوئى بھى اخلاقى برائي اتنى نا پسند نھيں ھے ۔ خود پسندى الفت و محبت کے رشتہ کو ختم کر ديتى ھے ۔ يگانگت و اتحاد کو دشمنى سے بدل ديتى ھے اور انسان کے لئے عمومى نفرت کا دروازہ کھول ديتى ھے انسان کو چاھئے کہ وہ جتنا دوسروں سے اپنے لئے احترام و محبت کا خواھشمند ھو ، اتنا ھى دوسروں کى حيثيت و عزت و وقار کا لحاظ کرے اور ان تمام باتوں سے پرھيز کرے جن سے حسن معاشرت کى خلاف ورزى ھوتى ھو يا رشتھٴ محبت کے ٹوٹ جانے کا انديشہ ھو ۔ لوگوں کے جذبات کا احترام نہ کرنے سے اس کے خلاف عمومى نفرت کا جذبہ پيدا ھو جاتا ھے اور خود وہ شخص مورد اھانت بن جاتا ھے ۔

معاشرے ميں ھر شخص کے حدود معين ھونا چاھئيں۔ ايک شخص اپنى شائستگى اور لياقت کے اعتبار سے لوگوں کى مخلصانہ محبت و احترام کو حاصل کرتا ھے ليکن جو شخص چھار ديواري ميں محصور ھوتا ھے اور تکبر اس کے مکان وجود کو مسخر کر ليتا ھے وہ صرف اپنى خواھشات کو پيش نظر رکھتا ھے اور دوسروں کے حقوق کا بالکل لحاظ نھيں کرتا ۔ اور وہ اپنى سى کوشش کرتا ھے کہ معاشرے ميں جس طرح بھى ھو مشھور و محترم ھو جائے اور اپنى موھوم برترى کو معاشرے پر بھى لادنا چاھتا ھے اور يھى بے موقع اصرار و توقع لوگوں کو اس سے متنفر بنا ديتا ھے اور پورا معاشرہ اس سے شديد نفرت کرنے لگتا ھے اور اس کو تکليف پھونچانے پر اتر آتا ھے اور يہ شخص ( متکبر ) مجبورا ً قلبى اضطراب و روحي تکليف کے ساتھ خلاف توقع ان مصائب و تکاليف کو برداشت کرتا ھے ۔

تکبر کا لازمہ بد بينى ھے ، متکبر کى آتش بد گمانى کا شعلہ ھميشہ بھڑکتا رھتا ھے اور وہ سب ھى کو اپنا بد خواہ اورخود غرض سمجھتا ھے اس کے ساتھ مسلسل ھونے والى بے اعتنا ئيوں اور اس کے غرور کو چکنا چور کر دينے والے واقعات کى ياديں اس کے دل سے کبھى محو نھيں ھوتيں اور بے اختيار و نا دانستہ اس کے افکار اس طرح متاثر ھو جاتے ھيں کہ جب بھى اس کو موقع ملتا ھے وہ پورے معاشرے سے کينہ توزى کے ساتھ انتقام پر اتر آتا ھے اور جب تک اس کے قلب کو آرام نہ مل جائے اس کو سکون نھيں ملتا ۔

جب خود پرستى Ùˆ تکبر کا اھرمن انسان Ú©Ù‰ فطرت ميں اثر انداز Ú¾Ùˆ جاتا Ú¾Û’ اور انسان اپنى اس روحانى بيمارى Ú©Ù‰ وجہ سے ” احساس حقارت “ ميں مبتلا Ú¾Ùˆ جاتا Ú¾Û’ ØŒ تو پھر ÙŠÚ¾ÙŠ بيمارى رفتہ رفتھ” عقدہ حقارت “  ميں تبديل Ú¾Ùˆ جاتي Ú¾Û’ ۔پھر ÙŠÚ¾Ù‰ چيز بھت سے خطرات کا مرکز اور مختلف جرائم کا منبع بن جاتى Ú¾Û’ اور متکبر Ú©Ùˆ روز افزوں شقاوت Ùˆ بد بختى Ú©Ù‰ طرف کھينچتى رھتى Ú¾Û’ Û” اگر آپ دنيا Ú©ÙŠ تاريخ کا مطالعہ فرمائيں تو يہ حقيقت آپ پر منکشف Ú¾Ùˆ جائے Ú¯Ù‰ اور آپ Ú©Ùˆ يہ بھى معلوم Ú¾Ùˆ جائے گا کہ جو لوگ انبيائے الٰھى Ú©Ù‰ مخالفت کرتے رھتے تھے اور حق Ùˆ حقيقت Ú©Û’ قبول کرنے سے اعراض کرتے رھے تھے وہ ھميشہ دنيا Ú©Ù‰ خونيں جنگوں ميں اس بات پر راضى رھتے تھے کہ ھستى بشر سر حد مرگ تک پھونچ جائے اور يہ جذبہ ھميشہ حاکمانِ وقت Ú©Û’ غرور Ùˆ خود پرستى Ú¾Ù‰ Ú©Ù‰ بنا پر پيدا ھوتا تھا Û”

آپ Ù†Û’ ديکھا Ú¾Ùˆ گا کہ پست اقوام Ùˆ پست خاندان ميں پرورش پانے والے افراد جب معاشرہ ميں کسى اچھى پوسٹ پر پھونچ جاتے Ú¾ÙŠÚº تو وہ متکبر Ú¾Ùˆ جاتے Ú¾ÙŠÚº Û” اور اس طرح وہ اپنى اس حقارت Ùˆ ذلت کا جبران کرنا چاھتے Ú¾ÙŠÚº  جو پستيٴ خاندا Ù† Ú©Ù‰ وجہ سے ان Ú©Û’ دامن گير تھى ØŒ ايسے لوگ اپنى شخصيت Ú©Ùˆ دوسروں Ú©Ù‰ شخصيت سے ماوراء سمجھتے Ú¾ÙŠÚº Û” اور ان Ú©ÙŠ سارى کوشش ÙŠÚ¾Ù‰ ھوتى Ú¾Û’ کہ اپنى شرافت کا ڈھنڈھورا پيٹيں Û” محترم Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ والے اپنے ارد گرد اس قسم Ú©Û’ لوگوں Ú©Ùˆ ديکہ سکتے Ú¾ÙŠÚº ØŒ جو شخص واقعى بر جستہ پر ارزش ھوتا Ú¾Û’ وہ اپنے اندر کبھى بھى اس قسم کا احساس Ù†Ú¾ÙŠÚº کرتا اور نہ اس بات Ú©Ù‰ کوشش کرتا Ú¾Û’ کہ اپنى بزرگى Ú©Ù‰ نمائش کرے ØŒ کيونکہ وہ جانتا Ú¾Û’ کہ خود نمائى سر مايہ Ù´ برتري Ù†Ú¾ÙŠÚº Ú¾Û’ ØŒ اور غرور Ùˆ تکبر Ù†Û’ نہ کسى Ú©Ùˆ شائستگى بخشى Ú¾Û’ اور نہ کسى Ú©Ùˆ عظمت Ùˆ سر بلندى Ú©Ù‰ چوٹى پر پھونچا ياھے Û”

ايک دانشمند کھتا ھے : اميدوں کے دامن کو کوتاہ کرو اور سطح توقعات کو نيچے لے آؤ ۔اپنے کو خواھشات کے جال سے آزاد کراؤ ۔ غرور و خود بينى سے دورى اختيار کرو قيد و بند کى زنجيروں کو توڑ دو ۔ تاکہ روحانى سلامتى سے ھم آغوش ھو سکو ۔

بزرگان دين درس تواضع ديتے ھيں

فضائل اخلاقى ميں سے ايک چيز جو رمز محبوبيت ھے اور جلب محبت و دوستى کا بھترين ذريعہ ھے وہ ” تواضع و فروتنى “ ھے ، متواضع شخص اپنے اس اخلاقى فريضہ کے سبب معقول حد تک ترقي کر ليتا ھے ۔

يہ بات ضرور ذھن ميں رکھئے کہ ” تواضع “ اور ” چاپلوسى “ ميں زمين آسمان کا فرق ھے، انميں سے ھر ايک کا حساب الگ ھے ۔ کيونکہ تواضع فضيلت اخلاقى کى حکايت کرتى ھے اور شرافت نفس ، عظمت ، شخصيت ، باطنى سکون کا پتہ ديتى ھے ليکن چاپلوسى پستى اخلاق اور عدم شخصيت کا پتہ ديتى ھے ۔

حکيم لقمان نے اپنے بيٹے کو سود مند نصائح کرتے ھوئے فرمايا تھا : نخوت و تکبر سے پرھيز کرنا ۔ قرآن مجيد کھتا ھے :” و لا تصعر خدّک للناس و لا تمش فى الارض مرحا انّ اللہ لا يحب کل مختال فخور “ ( ۱)



back 1 2 3 4 5 6 next