غیر مسلم كا عمل صحیح ھے یا باطل؟



غیر مسلم كا عمل صحیح ھے یا باطل؟

         

غیر مسلم كا عمل صحیح ھے یا باطل؟ كیا حق اور صحیح دین صرف اسلام ھے اور غیر مسلم كا عمل قابل قبول نہیں ھے؟

یہ سوال معاشرہ كے مختلف طبقات، جاھل و عالم، انگوٹھا چھاپ اور تعلیم یافتہ، یونیورسٹی اور غیر یونیورسٹی تمام لوگوں كے درمیان ھمیشہ اٹھتا رھا ھے۔ اور آج كل یونیورسٹیوں میں خصوصی طور پر دوبارہ پوچھا جارھا ھے كہ كیا غیر مسلم لوگوں كے نیك اعمال قابل قبول ھیں یا نہیں؟ (اگر ان كے اعمال قابل قبول مان لئے جائیں تو پھر) مسلمان اور غیر مسلمان ھونے سے كیا فرق پڑتا ھے كیونكہ اصل یہ ھے كہ دنیا میں كار خیر كرے بالفرض مسلمان نہ ھو یا كسی دین كو نہ مانتا ھو تو اس نے كوئی نقصان نہیں كیا۔ اور اگر (ان كے اعمال) قبول نہ كئے جائیں اور بالكل بے ارزش بیہودہ و باطل اور خدا كے نزدیك اجر كے لائق نہ ھوں تو یہ خدا كے عدل سے كیسے سازگار ھوگا؟

بالكل یہی سوال شیعیت كے اعتبار سے نیز دائرہ اسلام میں اٹھایا جاسكتا ھے كہ كیا غیر شیعہ مسلمان كا عمل درگاہ خداوندی میں قابل قبول ھے یا بالكل بے ارزش و باطل ھے؟ اور اگر خدا كی بارگاہ میں (ان كے اعمال) قابل قبول ھیں تو پھر شیعہ مسلمان یا غیر شیعہ مسلمان ھونے سے كیا فرق پڑتا ھے؟ اھم یہ ھے كہ انسان مسلمان ھو، بالفرض شیعہ نہ ھو اور اھل بیت (ع) كی ولایت كو قبول نہ كرتا ھو تو اس نے كوئی ضرر نہیں كیا ھے لیكن اگر قابل قبول نہ ھو تو یہ خدا كے عدل سے كیسے سازگار ھوگا؟ اس سوال كے تفصیلی جواب سے پہلے ایك دوسرے سوال كا اجمالی جواب بھی لازم ھے كہ كیا دین اسلام كے علاوہ كوئی اور دین قابل قبول ھے یا نہیں صرف قابل قبول دین اسلام ھی ھے؟ انھی دو سوال كا جواب ھم آپ قارئین كرام بالخصوص معارف اسلامی سے متعلق اساتیذ كے سامنے شہید مطہری كی نگاہ سے پیش كر رھے ھیں۔

اس سلسلہ میں اجمالی طور پر كہنا چاھئے كہ ھر زمانہ میں حق دین، صرف ایك ھی عدد رھا ھے جس كی پیروی كرنا ھر ایك پر ضروری ھے اور یہ خیال جو بعض آزاد فكر دعویداروں كے ذھن میں كچھ عرصہ قبل آیا ھے كہ تمام آسمانی ادیان اعتبار كے لحاظ سے تمام وقت (ھمیشہ) ایك جیسے ھیں۔ یہ خیال بالكل غلط ھے۔ یقیناً خدا كے پیغمبروں كے درمیان كوئی نزاع اور اختلاف نہیں رھا ھے اور تمام الہی پیغمبر ایك ھدف اور ایك خدا كی دعوت دیتے رھے ھیں۔ لیكن اس كا مطلب یہ نہیں ھے كہ ھر زمانہ میں كئی عدد حق دین موجود رھے ھیں۔ لھٰذا انسان جس زمانہ میں جو بھی دین قبول كرنا چاھے قبول كرسكتا ھے۔ بلكہ نتیجہ اس كے برعكس ھے كیونكہ مطلب یہ ھے كہ انسان كو چاھئے كہ تمام پیغمبروں كو قبول كرے اور اس كو معلوم ھونا چاھئے كہ سابق كے تمام پیغمبر اپنے بعد كے پیغمبروں بالخصوص خاتم اور افضل كیلئے مبشر تھے اور بعد كے پیغمبر سابق كے پیغمبروں كے لئے مصدق (تصدیق كرنے والے) تھے۔ لھٰذا تمام پیغمبروں پر ایمان ركھنے كا لازمہ یہ ھے كہ ھم ھر زمانہ میں اسی پیغمبر كی شریعت كو تسلیم كریں جس كے زمانہ میں ھیں۔ یہی وجہ ھے كہ خاتمیت كے زمانہ میں ھمیں ان آخری قوانین پر عمل كرنا چاھئے جو خدا كی جانب سے آخری پیغمبر كے ذریعہ آئے ھیں اور یہ اسلام كا لازمہ یعنی خدا كے سامنے تسلیم ھونا اور اس كے پیغمبروں كی رسالتوں كو قبول كرنا ھے۔

ھمارے زمانہ كے بعض لوگ اس فكر كے حامی ھوگئے ھیں كہ انسان كے لئے یہی كافی ھے كہ خدا كی پرستش كرے اور خدا كی جانب سے آئے ھوئے كسی دین سے منسلك ھوجائے اور اس كے قوانین پر عمل كرے۔ قوانین كی شكل (یعنی قوانین كیسے اور كیا ھیں) اس كی كوئی خاص اھمیت نہیں ھے حضرت عیسیٰ (ع) بھی پیغمبر ھیں۔ حضرت محمد (ص) بھی پیغمبر ھیں۔ اگر عیسیٰ مسیح آئین كے مطابق عمل كریں اور ھفتہ میں ایك بار كلیسا چلے جائیں تو صحیح ھے اور اگر حضرت خاتم الانبیاء كے آئین كے مطابق عمل كریں اور ھر دن پانچ مرتبہ نماز پڑھ لیں تو صحیح ھے۔ ان لوگوں كے كہنے كے مطابق، اھم یہ ھے كہ انسان خدا پر ایمان ركھتا ھو اور الٰہی ادیان میں سے كسی ایك دین كے قوانین پر عمل كرتا ھو۔

كتاب "الامام علی (ع)" كے مؤلف جرج جرداق اور لبنان كے معروف و مشھور عیسائی محرّر جبران خلیل جبران اور ان كے جیسے افراد اسی فكر و نظریہ كے حامی ھیں۔ یہ دونوں حضرت رسول خدا (ص) اور امیر المومنین (ع) امیر بالخصوص حضرت امیرالمومنین (ع) كے سلسلہ میں ایك ایسے مومن كیطرح گفتگو كرتے ھی جو ان كا معتقد ھو۔ بعض لوگ سوال كرتے ھیں یہ لوگ امیر المومنین (ع) اور پیغمبر اكرم (ص) پر عقیدہ ركھنے كے باوجود پھر بھی عیسائی ھیں یہ كیسے؟ اگر یہ لوگ سچ بولتے ھوتے تو اب تك مسلمان ھوجاتے۔ اور جب مسلمان نہیں ھوتے تو اس كا مطلب یہ ھوا كہ كچھ دال میں كالا ضرور ھے۔ یہ لوگ مكار ھیں اور حضرت پیغمبر (ص) و حضرت علی پر عقیدہ اور محبت كا اظھار سچ نہیں ھے۔

تو اس سوال كا جواب یہ ھے كہ وہ لوگ پیغمبر (ص) اور حضرت امیر المومنین پر عقیدہ و محبت كے اظھار میں سچے نہیں ھیں لیكن اتنا ضرور ھے كہ ادیان كی پابندی اور قبولیت كے سلسلہ میں ایك خاص طریقہ كی فكر ركھتے ھیں۔ ان لوگوں كا ماننا ھے كہ انسان كسی خاص دین سے وابستہ رھنے پر مجبور نہیں ھے بلكہ ادیان میں سے جس دین كو قبول كرلے كافی ھے۔ لھٰذا یہ لوگ عیسائی ھونے كے باوجود خود كو حضرت علی علیہ السلام كا محب اور مقرب مانتے ھیں حتی معتقد ھیں كہ حضرت بھی یہی فكر و نظر ركھتے تھے۔ جرج جرداق كہتا ھے: "حضرت علی ابن ابی طالب بھی لوگوں كو حتما كسی ایك خاص دین كے قبول كرنے پر مجبور كرنے كو پسند نہیں كرتے"۔

لیكن ھم اس فكر و نظر كو غلط اور باطل مانتے ھیں۔ یہ صحیح ھے كہ دین میں زبردستی اور دباؤ نہیں ھے جیسا كہ ارشاد ھے (لا اكراہ فی الدین) 1 لیكن اس كا مطلب یہ بھی نہیں ھے كہ خدا كا دین ھر زمانہ میں متعدد ھے اور ھمیں اختیار دیا گیا ھے جس كو چاھیں قبول كرلیں۔ ھرگز ایسا نہیں ھے۔ ھر زمانہ میں حق دین صرف ایك رھا ھے اور بس۔ ھر زمانہ میں صاحب شریعت پیغمبر خدا كی جانب سے آیا اور لوگ اس كی رھنمائی پر عمل كرنے اور عبادات و غیر عبادات سے متعلق اپنے احكام و قوانین كو اسی سے سیكھنے پر پابند تھے۔ (یعنی تمام مسائل میں اس كی رھنمائی سے آگے بڑھنا لوگوں كی ذمہ داری تھی) یہاں تك كہ حضرت خاتم الانبیاء (ص) كا زمانہ آگیا۔ اس زمانہ میں اگر كوئی شخص خدا كی جانب جانے كے لئے راستہ تلاش كرتا ھے تو اسے انہی كے دین كے قوانین پر عمل كرنا چاھئے۔ قرآن كریم میں ارشاد ھوتا ھے: (ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ و ھو فی الاخرة من الخاسرین) 2 اگر كوئی شخص اسلام كے سوا كسی اور دین كو قبول كرتا ھے تو ھرگز اسے قبول نہ كیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ھوگا۔



1 2 3 4 5 6 7 next