غیر مسلم كا عمل صحیح ھے یا باطل؟



علمائے علم اصول فرماتے ھیں: بعض عموم ایسے ھیں جنھیں استثناء نہیں كیا جاسكتا اور تخصیص (و محدودیت) كو قبول نہیں كرتے۔ یعنی عام كا لحن اور بیان اس طرح ھے كہ اسے تخصیص و استثناء كیا ھی نہیں جاسكتا۔ جس وقت كہا جاتا ھے كہ "ھم نیكی كرنے والے كا اجر و ثواب ضائع نہیں كرتے ھیں" اس كا مطلب یہ ھے كہ ھمارے منصب الٰہی كا تقاضا یہ ھے ھم نیك عمل كو محفوظ كریں۔ لھٰذا محال ھے كہ خدا كہیں بھی اپنے منصب الٰٰہی سے دست بردار ھوجائے اور نیك عمل كو ضائع و برباد كردے۔

1. بقرہ، آیت ۲۵۶

2. آل عمران، آیت ۸۵

3. البتہ اس كا مطلب یہ نہیں ھے كہ تمام اشیاء كی نسبت بھی خدا سے یكساں ھے اور ان سب كو برابر كا حق حاصل ھے۔ خدا سے اشیاء كی نسبت یكساں نہیں ھے لیكن خدا كی نسبت اشیاء كے ساتھ یكساں ھے۔ خدا ایك طرح سے تمام اشیاء سے نزدیك ھے لیكن اشیاء قرب و بعد كے اعتبار سے خدا سے مختلف و متفاوت ھیں۔ اس سلسلہ میں ایك دلكش جملہ دعائے افتتاح میں آیا ھے «الذی بعد فلا یریٰ و قرب فشھد النجویٰ» اس جملہ میں خدا كی صفت كو اس طرح بیان كیا گیا ھے:

وہ ذات جو دور ھے تو اتنی كہ اسے دیكھا نہیں جاسكا۔ اور نزدیك ھے تو اتنی كہ نجویٰ اور كانا پھونسی تك كی گواہ ھے۔

در حقیقت ھم اس سے دور ھیں لیكن وہ ھم سے نزدیك ھے۔ یہ ایك عجیب معمہ ھے كہ یہ كیسے ھوسكتا ھے كہ دو چیزیں قرب و بعد كے لحاظ سے ایك دوسرے كی بہ نسبت دو مختلف نسبتیں ركھتی ھوں؟ جی ھاں، یہاں ایسا ھی ھے۔ خدا تمام اشیاء سے قریب ھے لیكن اشیاء اس سے قریب نہیں ھیں یعنی مختلف اعتبار سے دور یا نزدیك ھیں۔ اس جملہ میں سب سے زیادہ غور طلب بات یہ ھے كہ حب خدا كو «دوری» سے متصف كرتا ھے تو مخلوقات كی صفتوں میں سے ایك صفت كو اس كی دلیل ذكر كرتا ھے اور وہ خدا كا حاضر و ناظر اور واقف ھونا ھے۔ لھٰذا جہاں ھمارے كام سے متعلق گفتگو ھوتی ھے وھاں ھم خدا كی «دوری» سے منسوب كرتے ھیں اور جب اس كے كام سے متعلق گفتگو ھوتی ھے تو ھم صفت «قرب» كی نسبت اس كی طرف دیتے ھیں۔

 

یار نزدیك تر از من بہ من است

و این عجب تركہ من از وی دورم

 



back 1 2 3 4 5 6 7 next