غیر مسلم كا عمل صحیح ھے یا باطل؟



اگر یہ كہا جائے كہ اسلام سے مراد، خاص طور پر ھمارا دین نہیں ھے بلكہ خدا كے سامنے تسلیم ھونا ھے تو جواب یہ ھے اسلام كا مطلب ھی تسلیم ھونا ھے۔ دین اسلام ھی دین تسلیم ھے۔ لیكن تسلیم كی حقیقت ھر زمانہ میں ایك خاص شكل و صورت پر مشتمل تھی اور اس زمانہ میں اس كی شكل وھی گرا نمایہ و عظیم دین ھے جو حضرت خاتم الانبیاء (ص) كے دست مبارك پر ظھور پایا ھے۔ اور كلمہ اسلام صرف اسی پر منطبق ھوتا ھے اور بس۔ بالفاظ دیگر خدا كی بارگاہ میں تسلیم ھونے كا لازمہ ھی اس كے قوانین كا قبول كرنا ھے۔ اور واضح و روشن ھے كہ ھمیشہ خدا كے آخری قانون پر عمل كرنا چاھئے۔ اور خدا كا آخری قانون وھی ھے جو اس كے آخری رسول لیكر آئے ھیں۔

 

دو طرح كی طرز فكر

عام طور پر روشن فكر اور آزاد خیال كے مدعی حضرات قاطعیت و یقین كے ساتھ كہتے ھیں: مسلمان اور غیر مسلمان بلكہ موحد اور غیر موحد كے درمیان كوئی فرق نہیں ھے۔ جو شخص بھی نیك عمل انجام دے گا۔ ایك فلاحی ادارہ، یا كشف و اختراع یا كسی اور طریقہ سے كوئی خدمت انجام دے گا وہ خدا كی جانب سے مستحق اجر و ثواب ھے۔

ان كا كہنا ھے كہ خدا عادل ھے اور عادل خدا اپنے بندوں كے درمیان اونچ نیچ، بھید بھاؤ كا قائل نہیں ھے۔ خدا كے لئے كیا فرق پڑتا ھے كہ اس كا بندہ اسے پہچانے یا نہ پہچانے۔ اس پر ایمان ركھے یا نہ ركھے۔ خدا كبھی كبھی اس بندہ كے نیك عمل كو اس وجہ سے كم اھمیت اور اس كے اجر كو ضایع و برباد نہیں كرتا كہ بندہ اس سے آشنائی اور دوستی نہیں ركھتا۔ اور اگر كوئی بندہ خدا كو پہچانتا ھو، نیك عمل انجام دیتا ھو لیكن انبیاء كو نہ پہچانتا ھو اور ان سے پیمان دوستی اور رابطہ آشنائی نہ ركھتا ھو تو بطریق اولیٰ خدا اس كے نیك عمل كو ضایع و برباد نہیں كرے گا۔

ان لوگوں كے مقابلہ میں ایك دوسرا گروہ ھے جو تقریباً تمام لوگوں كو مستحق عذاب مانتا ھے اور بہت مختصر لوگوں كے عمل كی قبولیت كا عقیدہ ركھتے ھیں وہ اپنی بات كو اس محور كے پیش نظر بیان كرتے ھیں كہ لوگ یا مسلمان ھیں یا غیر مسلمان۔ دنیا كی تین چوتھائی آبادی غیر مسلم ھے اور چونكہ مسلمان نہیں ھیں اس لئے وہ سب دوزخی ھیں۔ مسلمان بھی یا شیعہ ھیں یا غیر شیعہ۔ تمام مسلمانوں كی تقریباً تین چوتھائی صرف نام كی شیعہ ھے اور ان میں سے بہت كم ایسے ھیں جو اپنی سب سے پہلی ذمہ داری یعنی كسی مجتہد كی "تقلید" كرنے سے واقف ھیں تو پھر ان تمام اعمال كا كیا ھوگا جن كا صحیح اور كامل ھونا اسی فریضہ پر موقوف ھے۔ تقلید كرنے والے بھی غالباً اھل عمل نہیں ھیں۔ اس بنیاد پر بہت كم لوگ ایسے ھیں جنھیں نجات ملے گی۔

 

تیسری منطق

اس مقام پر ایك تیسری منطق ھے جسے قرآن كریم كہتے ھیں۔ قرآن مجید اس سلسلہ میں ھمیں ایسی فكر دیتا ھے جو مذكورہ دونوں فكروں سے جدا ھے اور صرف یہ قرآن سے ھی مخصوص ھے۔ قرآن كا نظریہ نہ تو آزاد خیالوں كے بے حد و حصر افكار سے مطابقت ركھتا ھے اور نہ ھی خشك اور تنگ نظر مقدس لوگوں كے نظریہ سے۔ قرآن كا نظریہ ایك خاص منطق پر استوار ھے اور جو بھی اس سے با خبر ھوتا ھے وہ یہ اعتراف كئے بغیر نہیں رہ پاتا كہ اس سلسلہ میں صحیح نظریہ اس كے سوا كچھ اور ھو ھی نہیں سكتا۔ اسی وجہ سے اس تعجب خیز اور عظیم كتاب پر ھمارا ایمان روز بروز بڑھتا جارھا ھے اور ساتھ ساتھ اس بات كا بھی بھرپور یقین ھوجاتا ھے كہ اس كے عالی معارف زمین پر بسنے والوں كے افكار سے جدا اور آسمانی سرچشمہ سے وابستہ ھیں۔

یہاں پر ھم دونوں فریق (روشن فكروں اور خشك مقدسوں مآب) كے دلائل كو ذكر كركے تجزیہ و تحلیل كرتے ھیں تاكہ ان پر تنقید كركے تیسری منطق یعنی اس سلسلہ میں منطق قرآن اور اس كے خاص فلسفہ سے آھستہ آھستہ نزدیك ھوسكیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 next